یوں تو شمع وطن پر مر مٹنے والے پروانوں کی ایک بہت لمبی فہرست ہے, کہ جس کے ہر اک شمار و انضباط میں پاکیزہ لہو سے تر سینکڑوں داستانیں رقم ہیں کہ جنہیں پڑھتے ہوئے اور سنتے ہوئے رشک و ناز کا اک حسین احساس جاگزیں ہوتا ہے۔ اور چشم تصور سے جرات شجاعت اور بسالت کے ایسے ایسے کمال مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسان دیدہ و دل فراش راہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
اذہان کے پردوں پر ثبت انہی انمٹ نقوش میں سے ایک ایسا نقش کہ جس کی تروتازگی آج تک برقرار ہے اور جو رہتی دنیا تک قائم دائم رہے گی, میجر شبیر شریف شہید کا ہے۔ پنجاب کے ایک دیہی علاقے کا پالا ہوا وطن کا یہ بیٹا نہ صرف خود ملک و قوم پر قربان ہوا بلکہ اس کی شہادت کی برکت سے خدائے بزرگ و برتر نے اس کے خاندان کو بھی اس پاک وطن کی پاک مٹی کی رکھوالی اور صیانت و اعانت کے فریضے کی ادائیگی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ جی ہاں یہ بہادر سپوت نہ صرف ملک و ملت کے ایک اور عظیم ھیرو میجر عزیز بھٹی شہید کے خاندان کا چشم و چراغ تھا بلکہ انہیں موجودہ دور کے سابقہ نڈر بہادر اور دلیر جرنیل راحیل شریف کے بڑے بھائی ہونے کا رتبہ بھی حاصل ہے۔
میجر شبیر شریف شہید 28 اپریل 1943ء کو ضلع گجرات کے ایک علاقے کنجاہ میں پیدا ہوئے، لاہور کے سینٹ انتھونی سکول اور گورنمنٹ کالج میں او لیول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستانی فوجی درس گاہ کاکول اور 19 اپریل 1964ء میں فرنٹیر فورس رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بطور سیکنڈ لیفٹنٹ شریک ہوئے اور ایک بڑے فوجی اعزاز ستارہ جرات سے نوازے گئے۔ 1970 میں 27 سال کی عمر میں ایورشائن پینٹس کے ڈائریکٹر میاں محمد افضل کی دختر نیک اخترسے رشتہ ازواج میں منسلک ہوئے جن کا اسم گرامی روبینہ بیگم تھا۔
3 دسمبر 1971ء کو جب بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو وہ بطور کمپنی کمانڈر فرنٹیر فورس سکس الف الف رجمنٹ ہیڈ سلیمانکی کے محاذ پر تعینات تھے۔ چاروں طرف سے آگ، خون اور بارود کا کھیل شروع ہو چکا تھا۔ طرفین میں شدیدگولہ باری سے خوف و دھشت کا ایک طوفان برپا تھا۔ ایسے میں انہیں فوجی نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کے حامل دشمن کے زیر تسلط ایک بڑے بند پر قبضے کا حکم جاری ہوا۔ جہاں سےدو گائوں "گورمکھ کھیڑہ" اور "بیری والا" زد میں آ سکتے تھے۔ فوجی لحاظ سے اس جگہ کی بڑی اہمیت تھی اور اسی وجہ سے بھارت نے یہاں آسام رجمنٹ کی ایک کمپنی تعینات کر رکھی تھی جسے ٹینکوں کے ایک اسکواڈرن کی مدد بھی حاصل تھی۔
یہ ایک نہایت ہی مشکل ٹاسک تھا۔ کیونکہ راستے میں 30 فٹ چوڑی اور 10 فٹ گہری ایک نہر عبور کرنا تھی جسے دشمن دفاعی لائن کے طور پر استعمال کر رہا تھا, دسمبر کی لہو جما دینے والی ٹھٹھرتی سنسان سرد رات میں اس برفانی نہر کو عبور کرنا آسان نہیں تھا, اور پھر ایک ایسی پوزیشن میں کہ جب دشمن گولہ و بارود کے انبار لیے اونچائی پر بیٹھا تاک تاک کر نشانے لگا رہا ہو, اور اطراف میں قدم قدم پر انسانی جسموں کے پرخچے اڑا دینے والی بارودی سرنگوں کے جال بچھے ہوئے ہوں تو یہ سب ناممکنات میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن جب اپنی مٹی کی محبت میں آشفتہ سری ہی تمام متاع حیات ہو اور دلوں میں فضائے بدر و حنین بپا ہو تو فرشتے بھی مدد و نصرت کے لیے قطار اندر قطار اتر آتے ہیں۔
3 دسمبر کی سحر ہوتے ہی میجر شبیر شریف اپنی کمپنی 6 الف الف کے ساتھ مل کر خدائے بزرگ و برتر کے حضور سجدہ ریز ہوگئے، اللہ تعالیٰ سے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی کامیابی کی دعا مانگی۔ سورج طلوع ہوتے ہی انہوں نے اپنے چند پیشہ وارانہ ماہر ساتھیوں کو ساتھ لیا, اور جان ہتھیلی پر لیے آس پاس کے تمام علاقے کی اچھی طرح ریکی کی, آئندہ پیش آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں سے بچنے اور ممکنہ راستوں کا لائحہ عمل تیار کیا, اس کے ساتھ ساتھ دن بھر دوربین کی مدر سے بھارتی چیک پوسٹوں پر گہری نظر رکھی۔ دوپہر کے بعد انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ اگلے مشن کو فائنل کر لیا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اسی شام ہی دشمن پر کاری ضرب لگائی جائے گی۔ ابھی سورج مکمل غروب نہیں ہوا تھا کہ میجر شبیر شریف اور ان کے ماتحت چند جنونی حرمت وطن کی خاطر موت کی اس نہر میں کود پڑے، اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے عبور کر لیا۔ نہر پار کرتے ہی وہ آندھی اور طوفان کی طرح تمام رکاوٹوں کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے دشمن پر یکلخت ٹوٹ پڑے۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک اور حیران کن تھا کہ بھارتی سورما بوکھلا کر رہ گئے, ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنے مضبوط دفاعی حصار کو یوں پل بھر میں پاش پاش کیا جا سکتا ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایک چھلاوے کی مانند جھپٹنے والی خاکی پیرہنوں میں ملبوس اس مخلوق کو کیسے روکا جائے۔ ان کی بوکھلاہٹ اور بدنظمی کا یہ عالم تھا کہ تمام اسلحہ بارود کے ڈھیر مورچوں میں ہی چھوڑ کر بھارتی فوجی پیچھے بھاگنا شروع ہو گئے, اگلے دن شام تک تمام علاقہ کلئیر ہو چکا تھا۔ 5 اور 6 دسمبر کی درمیانی شب کو میجرشبیر شریف خود ایک مورچے میں داخل ہوئے، اور آسام کمپنی کے کمانڈر کو اپنے ہاتھوں سے جہنم واصل کر دیا۔ اور یوں بند کا مکمل قبضہ حاصل کر کے ارض وطن سے وفاداری و عشق کا حق ادا کر دیا۔ اس معرکے میں دشمن کے 43 سپاہی مارے گئے اور چار ٹینک تباہ ہوئے۔ اس کے علاوہ دوسرا فوجی سازوسامان اور گولہ و بارود کے ڈھیر الگ تھے۔
اس شکست سے دشمن کو بہت خفت اٹھانا پڑی, اب وہ شکست خوردہ اپنے زخم چاٹنے پر مجبور تھا۔ اس نے فوراً ہی بدلہ لینے کی ٹھانی اور چھ دسمبر کی درمیانی رات کو بھاری ہتھیاروں اور تروتازہ کمک کے ساتھ جوابی حملہ کر دیا۔ حملے کا دفاع کرتے ہوئے میجر شبیر شریف اینٹی ائیر کرافٹ گن سے بھارتی ٹینکوں پر لگاتار گولہ باری کر رہے تھے کہ دشمن کے ٹینک کا ایک بڑا گولہ ان کے قریب آ گرا جس کے نتیجے میں میجر شبیر شریف شدید زخمی ہو گئے, لیکن جانبر نہ ہو سکے اور بالاخر شہادت کی منزل کو پا لیا۔
اناللہ وانا الیہ راجعون
انکی ہمت اور بہادری کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں پاکستان کے سب سے بڑے ملٹری اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔ وہ پاکستان فوج کے پہلے شہید ہیں جنہیں نشان حیدر کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑے فوجی اعزاز ستارہ جرأت سے بھی نوازا گیا, جو انہوں نے 1965 کی جنگ میں بطور سیکنڈ لیفٹینٹ داد شجاعت دیتے ہوئے حاصل کیا تھا۔ شبیر شریف لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ اس قبرستان میں ان کو ان کی وصیت کے مطابق ان کے ایک جگری دوست کی معیت میں دفن کیا گیا, جو جوانی میں ہی وفات پا گیا تھا, جس کی اپنی زندگی میں ہی انہوں نے اپنی والدہ کو وصیت کر دی تھی۔
میجر شبیر شریف شہید کے نشان حیدر کا اعزاز 3 فروری 1977ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں ان کی بیوہ نے حاصل کیا۔ اپنے فرائض کی ادائیگی و پاس داری میں ہر حد تک جانے والے سرفروشوں میں ان کا نام رہتی دنیا تک میں ہمیشہ روشن و تاباں رہے گا۔
اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو قبولیت کے اعلیٰ درجات میں شامل فرمائیں۔۔۔آمین ثم آمین
ملی نہیں ہے ہمیں ارض پاک تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
