امید و نا امیدی

پہلے امید کے حوالے سے ایک مشہور یونانی دیومالائی روایت دیکھیں ، یونانی مائتھا لوجی کے مطابق کہتے ہیں کہ جب آسمانی دیوتاؤں نے سزا کے طور پر پینڈورا نامی دیوی کو کسی خطا کی پاداش میں آسمانی دنیا سے زمین پر بھیجا تھا تو ایک باکس بھی اسے کبھی نہ کھولنے کی تاکید سے دیا تھا جسے پینڈورا باکس کہا گیا اور اسوقت  کی دنیا بلاؤں اور دکھوں سے پاک بس خوشیوں اور نعمتوں کا گہوارہ تھی۔ پینڈورا نے زمین پر آکر وہ باکس کسی وجہ سے کھول دیا تو اس میں سے بیماریاں،دکھ،بلائیں اور مصائب نکل پڑے جو کہ اب تک روبہ عمل ہیں لیکن ان سب المیوں کے ساتھ اسی پینڈورا کے باکس سے ایک ایسی چیز نکلی جو انسانوں کے لئے ایک بے مثال  تحفہ تھی اور ہے اور وہ تھی امید۔ تو آج کل وطن عزیز میں اک عجیب سا عالم ہے ایک کشمکش ہے ایک جنگ برپا ہے امید و ناامیدی کے درمیان ۔ کبھی لگتا ہے کہ اب بہتری آتی چلی جائے گی۔ بہت ساری چیزیں  بظاہر درست ہوتی نظر آ رہی ہے بہت سارے اقدامات کا زور و شور سے اعلان بھی کیا جارہا ہے اور لگتا ہے کہ عمل بھی ہورہا ہے  عالمی سطح پر بھی پاکستان کے حوالے سے امید افزا اعلان سامنے آ رہے ہیں جیسے کہ ایک غیر ملکی جریدے میں  2020 کے لئے پاکستان کو بہترین سیاحتی ملک قرار دیا ہے، واضح رہے کہ سی این ٹریولر نامی ایک غیر ملکی جریدے نے پاکستان کو 2020 کا بہترین سیاحتی مقام قرار دیا ہے۔سی این ٹریولر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے سر سبز میدانوں کے دامن میں پہاڑی سلسلے ہیں اور سیاحوں کو یہاں کا رخ ضرور کرنا چاہیےاورجیسے کہ کشمیر کا ستر سال سے اقوام متحدہ کی فائلوں میں دبا ہوا  اور عالمی سرد مہری کا شکارمسئلہ بڑی سرگرمی سے دوبارہ جیسے زندہ ہوجانا اور عالمی توجہ حاصل کرلینا، جیسے کہ اندرونی طور پر پاکستان کے حالات میں بہتری آنے کا مژدہ بار بار سنائی دینا،جیسے کے کرنٹ کاؤنٹ خسارہ کم ہوجانے کی نوید، جیسے کہ بی آئی ایس پی پروگرام سے محترمہ ثانیہ نشتر جوکہ سردار عبدالرب نشتر کے معزز خاندان سے تعلق رکھتی ہیں  کی کوششوں سے تقریبا آٹھ لاکھ سے زیادہ ایسے افراد کا اخراج ہونا جو بڑے دھڑلے سے سن 2011 سے اس پروگرام سے وہ فوائد حاصل کررہے تھے جوکہ بنیادی طور پر غریب غرباء،مساکین اور مستحقین کا اس پروگرام کے تحت حق بنتا ہے اور کہا یہ گیا ہے کہ ان میں اعلی گریڈز کے سرکاری افسران بھی شامل ہیں ،قابل تحسین بات ہے کہ یہ قدم اٹھایا گیا لیکن اگر یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ ایسے غریبوں اور مستحقین کا حق کھانے والے سرکاری افسران کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی بھی ہوئی کہ نہیں تو ذرا مزید تشفی ہوجاتی اور اس تشہیر سے مستقبل میں ایسی دیدہ دلیری دکھانے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوجاتی۔
پر امید علامات میں اور بھی کئی  سرکاری اقدامات اور اعلانات ہیں جن سے عوام  الناس جن کا ویسے تو ستیا ناس تقریبا ہو ہی چکا ہے میڈیا کے ذریعے سے آگاہ ہوتے ہی رہتے ہیں اور بار بار ایک خوش کن مستقبل کے خواب دیکھنے لگتے ہیں کہ چلو اپنی تو جیسے تیسے گزر ہی گئی لیکن آئندہ آنے والی نسلیں شاید ایک زیادہ بہتر،خوشحال اور امکانات سے بھرپور پاکستان دیکھیں جہاں ہر شعبے میں میرٹ کی حکمرانی ہو اور ریاست واقعتا غریب ،پسے ہوئے اور محروم طبقات کے لئے ماں جیسا کردار ادا کرنے میں مزید  مخلصانہ کارگردگی کا مظاہرہ کرے گی۔  تو وہی امید موجودہ ملکی صورتحال میں بھی اپنے دھنک رنگ لئے جلوہ نما ہے اور تسلی سی ہوتی ہے کہ سب اچھا ہونے والا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سی باتیں ،حالات اور واقعات ایسے بھی رونما ہورہے ہیں جو ناامیدی کو ہوا دے رہے ہیں ،مایوسی کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں اور لوگوں کی امیدوں کو توڑ رہے ہیں مثلا اخبارات میں چھپنے والی وہ خبریں جن میں لوگ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آکر نہ صرف خود کشی کررہے ہیں بلکہ اپنے پیاروں اپنی اولادوں کو بھی ساتھ ساتھ زہر پلا کر مار رہے ہیں۔ مثلا ابھی چند دن پہلے کراچی میں بے روزگاری سے تنگ آکر خود سوزی کرکے جان دینے والا گدھا گاڑی چلانے والا علی حسن جس کی جیب سے وزیر اعظم کے نام دواپیل نما دردناک خط بھی ملےبلاشبہ یہ ایک ایسا ہولناک انسانی المیہ ہے کہ جس پر جتنا بھی دکھ اور تاسف ظاہر کیا جائے کم ہے، کراچی میں،لاہور میں، پشاور اور کوئٹہ میں تو ایسے واقعات بڑے شہر ہونے کی وجہ سے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں رپورٹ بھی ہوجاتے ہیں اور توجہ بھی حاصل کرلیتے ہیں لیکن دور دراز کے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں مہنگائی اور بے روزگاری کے جہنم میں جلتے لوگ کس کس طرح اپنی جانے دے رہے ہیں کیسے ایک ماں اپنے بچوں سمیت نہر میں چھلانگ مار کر اپنے تئیں دنیا کے دکھوں سے خود کو نجات دلا رہی ہے اس کا علم صرف سوشل میڈیا کی پوسٹوں یا سینہ گزٹ سے ہی تھوڑا بہت ہو پاتا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری جو موجودہ حکومت کے وزراء کی غیر سنجیدہ کارکردگی کی وجہ سے بلاشبہ ہولناک شکل اختیار کرتے جارہی ہے، کے ساتھ ساتھ ایک بے حسی کا عمومی رویہ اور ایک عوامی مسائل سے زبانی نہیں عملی طور پر لاتعلقی سی محسوس ہونے  کا رویہ بھی مشاہدہ کیا جارہا ہے۔ ادھر  کرپشن نے سرکاری محکموں کا بھٹہ ہی بھٹا دیا ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ بیشتر سرکاری اداروں میں الا ما شا اللہ چپراسی سے لیکر ادارے کے سربراہ تک سب ہی حصہ بقدر جثہ کے مصداق سرکاری خزانے کو کس کس طرح  اور کس کس سطح پر نقصان پہنچا رہے ہیں، ایسی خبریں بھی ناامیدی کے بادلوں کو اور گہرا کر دیتی ہیں جیسے کہ سابق وفاقی وزیر اور ماہر معیشت زبیر خان نے ایک ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا ہے کہ جب سے نئے وزیر خازنہ اور نئے گورنر اسٹیٹ بینک نے اپنے مناصب سنبھالے ہیں ایک نیا کام ہوا ہے کہ کچھ سرمایہ داروں نے تقریبا ایک ارب ڈالر پاکستان میں رکھوایا ہوا ہے جس پر انہیں بارہ سے تیرہ فیصد تک پرافٹ یا سود ادا کیا جارہا ہے ، یعنی ان سرمایہ داروں یا کمپنیوں  امریکا میں مروجہ پونے دو یا دو فیصد کی شرح سے ایک ارب دالر  وہاں کہیں سے اٹھایا ہے اور پاکستان میں رکھ کر گھر بیٹھے اس پر نو یا دس فیصد منافع لے رہی ہیں اور جب کبھی بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو پاکستان کی گردن دبوچنا ہوگی تو وہ کمپنیاں فورا اس ایک ارب دالر کو نکال لیں گی جس سے ڈالر کی قیمت پھر چڑھے گی۔ اب اگر یہ سب سچ ہے تو یہ ایک بین الاقوامی  مالیاتی کھیل جسے اگر فراڈ سے تعبیر کیا جائے تو کہنا غلط نہیں ہوگا قومی خزانے کو کتنانقصان دے رہا ہوگا یہ سب سامنے کی بات ہے لیکن متعلقہ ادارے اور وزارتیں شاید میٹھی نیند سو رہی ہیں۔
اور بھی ایسے بے شمار واقعات و اقدامات ہیں جو نا امیدی کو مزید بڑھاوا دے رہے ہیں اور یوں محسوس ہورہا ہے سوائے لفاظی اور خوش ائند اعلانات کے حکومت کچھ بھی نہیں کررہی ہے یا کر نہیں پا رہی ہے۔ تو امیدافزا اقدامات سے پیدا ہونے والی اطمینان بخش کیفیات اور ناامید کردینے والی خبروں سے اامڈنے والی نا امیدی کی جنگ فی الوقت اپنے عروج پر ہے اور اگر اس جنگ میں امید کو خاکم بہ دہن اگر شکست ہوگئ تو پھر اس کے اثرات کتنے خوفناک ہوسکتے ہیں وہ ہر سلیم العقل سمجھ سکتا ہے اس لئے جیسا کہ کہا جارہا ہے اور اعلانات کئے جارہے ہیں کہ رواں سال نچلے اور غریب طبقے کی فلاح و بہبود کا سال ہوگا تو اشد ضرورت  اس امر کی ہے کہ ان اعلانات کا عملی اطلاق فوری طور پر غریب و پریشان حال عوام کو اب نظر آنا شروع ہوجانا چاہیئے۔ بقول غالب؎ منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید۔۔ نا امیدی اس کی دیکھا چاہیئے۔
تحریر: خرم علی راؤ