عاشق ِرسولؐ،بابا جی علامہ خادم حسین رضویؒ کی یاد میں | Imran Mehmood

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں 
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح وقلم تیرے ہیں 
ہم بد نصیب لوگ ہیں کہ زندگی میں عظیم انسانوں کی پہچان نہیں رکھتے،پھر اُن کے دنیا سے رخصت ہونے پر روتے ہیں،
 ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے، پھر ان جیسا ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ملتا نہیں، اس کی وجہ ہماری اللہ تعالیٰ اور رسول ِاکرمﷺ سے دوری ہے۔ اقبال ؒ کا درج بالا شعر بالکل حقیقت پر مبنی اورہمارے لیے سند ہے کہ اگر ہم نبی کریمؐ سے وفا کریں تو یہ جہاں کیا چیز ہے،سب کچھ ہی ہمارا ہے۔
اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے کہ تمہاری لیے رسول اللہؐ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے (مفہوم)۔ اسی طرح فرمایا کہ اے نبی پاکؐ، ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا (مفہوم)۔ آپ ؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے کے بارے میں قرآن نے فرمایا کہ ابو لہب تیرے ہاتھ ٹوٹ گئے تو تباہ و برباد ہو گیا (مفہوم)۔ یعنی آپ ؐ کی زندگی میں بہترین نمونہ بھی ہے اور آپ ؐ کی شان کی خاطر لڑنا بھی مسلمانوں پر فرض ہے۔ ہمارے پیارے آقا ؐ نے خود فرمایا کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن، ایما ن والا اور مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اُس کو ا ُس کی جان، مال، اولاد، ماں باپ، حتیٰ کہ ہر چیز سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں (مفہوم ِ حدیث)۔ پس! ہمارے لیے واضح پیغام ہے کہ زندگی گزارنی ہے تو سرکارِ دوجہان ؐ کی غلامی میں، آپؐ کے بتائے گئے مبارک طریقے کے مطابق، بس۔۔۔اور ربِ کعبہ کی قسم جس نے یہ کیا، وہ امر ہو گیا۔۔۔
عاشق ِ رسولؐ ہونے کا دعویٰ کرنا بہت آسان ہے،تقریباََ ہر بندہ ہی دعویدار ہے، لیکن اس کے تقاضوں کو پورا کرنا بہت مشکل اور کٹھن کام، کیوں کہ اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔۔۔ غیر مسلم شروع سے ہی آقا کریم ؐ کی شان میں گستاخی کرنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں۔کیونکہ اسلام نے ہی دنیا پر چھا جانا ہے۔ پہلے ملعونین ِڈنمارک نے یہ غلیظ کام کیا۔ ابھی حالیہ فرانس کے معلونین نے خاکے بنا کر پھر یہ غلیظ کام کیا۔ افسوس! ہم مسلمان اس انتہاہی اہم اور حساس معاملے پر بھی اکٹھے نہ ہو سکے، ہم آقا کریمؐ کا سامنا کیسے کریں گے۔ جبکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آقاکریمؐ راضی تو اللہ راضی، آپؐ ناراض تو اللہ ناراض۔۔۔
ہماری خوش نصیبی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضویؒ جیساسچا عاشقِ رسولؐ عطا کیاتھا۔ لیکن افسوس ہم لوگوں نے ان کی زندگی میں ان کی قدر نہ کی، ان کو سمجھ نہ پائے۔۔۔ آپ حافظ ِ قرآن تھے، شیخ الحدیث تھے۔عربی گرائمر اور صیخوں کاوسیع علم رکھتے تھے۔ فارسی پر عبور تھا۔عربی، فارسی اور علم کا ایک رواں دواں سمندر تھے۔اس کے علاوہ آپ شعلہ بیان خطیب تھے۔واعظ ایسے کہ کہ باتیں دل چیر کر اند ر داخل ہوں، دلیر ایسے کہ مولا علی ؑ کی یاد تازہ کرے، عاشقِ رسول ؐ ایسے کہ اہل بیعتؑ کی یاد تازہ کرے۔۔۔ آپ علامہ اقبالؒ سے بے حد عشق کرتے تھے اور اقبال کے سارے کلام کے حافظ تھے۔اپنے ہر بیان میں اقبالؒ کے شعروں کو بیان کرتے تھے۔ اور ایسی روانی سے اقبال کے شعر پڑھتے تھے جیسے کلام ِ اقبال گھول کر پیا ہو۔
 آپ، نبی کریمؐ سے بے حد عشق کرتے تھے، اہلِ بیعت ؑاور صحابہ کرامؓ سے بھی۔۔۔نبی کریمؐ کے عشق میں آپ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے، "اُنہیں جانا اُنہیں مانا، بس اُنہیں جانا اُنہیں مانا، بس۔۔۔"یہی دہراتے تھے بار بار۔۔۔اور لبیک یا رسول اللہؐ کے نعرے لگاتے تھے۔ اور یہی کہتے کہ اللہ کے رسول ؐ ہم حاضر ہیں۔۔۔آپ کی باتوں سے عشقِ رسول ؐ کی خوشبو آتی تھی۔ سچا اور کھرا انسان اپنا رستہ، نام اور مقام بنا لیتا ہے، اور ایسے بندے کو حضور پاکؐ اکیلا نہیں چھورتے۔۔۔
بابا جی علامہ خادم رضوی ؒ کے بیانات ایسے مدلل اور سحر انگیرہوتے تھے کہ بندے کے دل میں گھر کر جاتے تھے۔ایسے بارعب اور باثر لہجے میں، نہایت روانی اور دل سے بولنے والے بندے شاز و نادر ہی ہوتے ہیں۔آپ قرآنی آیات، احادیث نبویؐ، تاریخی حوالے اور کلامِ اقبال ؒ روانی سے بیان کرنے پر سترس رکھتے تھے۔۔۔ جب بھی کوئی گستاخ اور ملعون، نبی پاکؐ کی شان میں گستاخی کرتا، نازیبا الفاظ استعما ل کرتا یا اہل ِ بیعتؑ و صحابہ ؓ کے بارے میں، تو آپ سیسہ پلائی دیوار کی صورت میں ان گستاخان اور ملعونین کے سامنے کھڑے ہو جاتے تھے۔دھرنے دیتے۔۔۔ اور اس ضمن میں آپ نے جیلیں کاٹیں، سزائیں کاٹیں۔لیکن اپنے مقصد سے ذرا بھی پیچھے نہ ہٹے۔ کیوں کہ آپ کی زندگی کا یہ بہت خوبصورت مقصد تھا کہ مر تو جانا ہی ہے پھر "چج دے نال کیوں نہ مراں "یعنی اچھی موت کیوں نہ مریں اپنے آقا کریمؐ کی غلامی والی موت۔۔۔   
حالیہ فرانس کے ملعونین نے آقا کریمؐ کے خاکے بنا کرگستاخی کا ارتکاب کیا۔ ایسے میں سب اسلامی ممالک نے مذمتی بیانات جاری کیے۔پاکستان نے بھی۔۔۔ لیکن علامہ رضویؒ صاحب نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ یہ مذمت سے حل ہونے والا مسئلہ نہیں، آپ نے شدیدسردی کے باوجود اور اپنی بیماری و بخار میں بھی فیض آبادبذات خود پہنچ کر دھرنا دیا، خطاب کیا اور مطالبہ کیا کہ فرانس کے سفیر کو ملک دربدرکیا جائے۔۔۔ مذاکرات کا خاتمہ آپ کی باتیں ماننے پر کیا گیا۔بہت سادہ اور فقیرانہ زندگی گزارنے کے بعد آپ 19نومبر 2020ء کومسکراتے نورانی چہرے کے ساتھ اس جہان ِ فانی سے رخصت ہو گئے۔تمام مسالک کے لاکھوں لوگوں نے آپ کے جنازے میں شرکت کی۔ اور اس کوبلاشبہ تاریخ کا سب سے بڑاجنازہ قرار دیا گیا ہے، کیونکہ عاشق کا جنازہ تھا تو دھوم سے نکلا۔۔۔
 علام خادم رضویؒ بلاشبہ اللہ کی ایک عظیم نعت تھے اور جب ہم نے اس نعمت کی قدر نہ کی تو اللہ نے یہ نعمت ہم سے واپس لے لی۔ ان کے دنیا سے جانے کے بعد ہر مسلک کے پیروکار کی آنکھ اشک بار ہے۔ شخصیت وہی سچی ہے جس کی یاد میں دل روئے، جوبذات خود ہمارے دلوں میں اتر کر گھر کر جائے۔ تمام مسالک کے مذہبی رہنما ؤں اور لوگوں نے آپ کی وفات پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے اور آپ کی خدمات کو سراہا ہے۔۔۔آپ کے عشق ِ رسولؐ نے سب مسالک کو اکٹھا کر دیا اور ایک سوچ و فکر دی کہ اپنے نبیؐ کے لیے کھڑے ہو جائیں۔۔۔اپنے غیروں سب نے مانا کہ آپ سچے عاشق رسول ؐتھے، ایسا عاشق رسولؐ،کہاں سے لائیں گے جس نے ٹانگیں نہ ہونے کے باوجود وہ سفرِ عشق طے کیا جو ہم سب مل کر بھی نہ کر سکے۔۔۔ ویل چیئر پر رہ کراس مرد ِ مجاہد نے وہ اڑان بھری جس کا ہم تصور بھی نہیں سکتے۔۔۔ 
تحریر کا اختتام بابا جی خادم رضویؒ کے بارے میں اپنے جذبات و احساسات اور مشاہدات سے کرنا چاہتا ہوں۔ کافی علما ء کرام اور بزرگان کو سنتا رہتا ہوں اورتمام مسالک کے بزرگوں کا احترام کرتا ہوں اور عقیدت بھی رکھتا ہو۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مجھے علامہ خادم رضوی ؒ سے کبھی بھی عقیدت نہیں رہی تھی۔ بہرحال، بابا جی کی وفات سے 2-3دن قبل میں اپنے جاننے والوں کو یہ ضرور بتا رہا تھا کہ یار یہ واحد بندہ ہے جو نبی کریمؐ کی ناموس کے لیے نکلتا ہے دھرنے دیتا ہے، ایسا بندہ ہمیں نہیں ملے گا۔ یہ شاید علامہ خادم رضوی صاحب کے ساتھ میری عقیدت کا پہلا آغاز تھا۔ پھر جب ان کی وفات کی خبر کا پتہ چلا، دل شدید اداس اور غمزدہ ہو گیا۔ عموماََ میرے ساتھ ایسا ہوتانہیں، افسوس تو ہوتا ہے لیکن اتنا نہیں۔ پھر ان کے بیانات اور وڈیو وغیرہ واٹس اپ پر آنا شروع ہوئے۔ یوٹیوب پر ان کے بیانات دیکھنے شروع کیے تو ان سے بے حد پیار ہونا شروع ہوئے، مجھے یہ یقین ہو گیا اور میرے دل نے قبول کر لیا کہ یہ سچا عاشقِ رسول ؐ تھا۔سچے کی گواہی دل دیتا ہے، سچے کو دل قبول کرتا ہے۔ سچا اپنی طرف کھینچتا ہے۔ سچ چڑھتا سورج ہے۔۔۔ میں آپ کے بیان سن کر روتا بھی رہا، دل بھی اداس۔۔۔ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کے لیے بھی کبھی اتنا نہیں رویا۔ اور ایک دن تو ان کا ایسا بیان تھا کہ جو سن کر میں اتنا رویا کہ میرا جسم کانپنے لگا، اور عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ اس کے بعد مجھے خوشبو محسوس ہونا شروع ہوئی، دو دن تو تیز خوشبو محسوس ہوئی۔ یہ خوشبو ویسی ہی تھی جیسی خوشبو میرے دفتر کاایک دوست مدینے سے لے کر آیا تھا اور اس سے میں نے لی تھی۔۔۔ابھی بھی کبھی کبھی ویسی خوشبو آتی ہے، سونگھتا ہوں۔۔۔یہ خوشبو ویسے نہیں آتی،واقعی بابا جی علامہ خادمہ رضوی ؒ پر نبی کریم ﷺ کی خاص نظرکرم تھی، آپ صاحب ِکرامت بزرگ تھے۔۔۔ علامہ خادم رضوی ؒ اکثر خود ہی بتاتے تھے کہ "گل وِچ کُج اور اے"۔۔۔اور اس بات کی اب سب کو سمجھ آنا شروع ہو رہی ہے۔ میرا یہ یقین ہے کہ وہ اس وقت کے سب سے بڑے عاشق ِرسول ؐ تھے جو ہمیشہ کے لیے ہمارے دلوں میں رہ گئے۔۔۔یہ زمانہ،امامِ وقت، عاشق ِ رسول ؐ،بابا جی خادم حسین رضویؒ کو کبھی بھول نہ پائے گا۔ اب ناموسِ رسالت کے لیے کون نکلے گا۔۔۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نبی کریمؐ کے ساتھ سچا عشق کرنے والا بنا دے اور ہمارا انجام بھی عشقِ رسولؐ میں ہو۔
سنے کون قصہ ِ دردِ دل،میرا غم گسار چلا گیا
جسے آشناؤں کا پاس تھا، وہ وفا شعار چلا گیا