7 ستمبر ایک تاریخ ساز دن | Muhammad Farooq Azmi

 1857ء کی جنگِ آزادی کی پاداش میں مسلمان زیرِ عتاب تھے۔ انگریز مسلمانوں کو اذیتوں اور آزمائشوں میں مبتلا کر کے ان کے دل سے عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور جذبہ جہاد مٹا دینا چاہتا تھا ۔ آج سے ڈیڑھ دو صدی قبل جب نو آبادیاتی نظام نے برصغیر پاک و ہند کا رخ کیا تھا تو سفید چمڑی والے مکار اور شاطر انگریز کے پاس مسلمانوں کو جذبہ حریت سے بیگانہ کرنے اور فریضہ جہاد سے باز رکھنے کا واحد فارمولا یہ تھا کہ ان کی وحدت کو ختم کر دیا جائے اور اس کے لیے مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کرنے کا مشن لے کر وہ ایسے افراد کا سہارا لے رہا تھا جو مدعیانِ نبوت اور مسیح و مہدی ہونے کا دعوی کر دیں۔ اس کی مثالیں ہندوستان میں قادیانی گروہ اور ایران میں بہائی فرقہ کی شکل میں سامنے آئیں ۔


مرزا غلام احمد قادیانی پنجاب کے ضلع گرداسپور کے ایک غیر معروف گاؤں قادیان میں پیدا ہوا۔ اس کی کوئی باقاعدہ تعلیم نہ تھی ۔ اس نے مختلف مکتبہ فکر  کے علمائے دین سے تھوڑا تھوڑا عرصہ تعلیم حاصل کی۔ وہ چار سال تک سیالکوٹ کی کچہریوں میں روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہا ۔ یہ 1864 سے 1868 تک کا زمانہ تھا ۔ یہاں اس کے صاحبِ اختیار و اقتدار لوگوں سے روابط استوار ہوئے ۔ جنہوں نے " میرزے " کو ایک خاص مشن دے کر واپس قادیان بھیج دیا ۔ جہاں یہ فتنہ باز شخص تصنیف و تالیف میں مصروف رہا - مرزا غلام احمد قادیانی نے 1880 ء کے بعد بہت سے بہروپ بھرے اور انگریزوں کی ایما پر مختلف ڈھونگ رچاتا رہا  وہ کبھی مجدد ہونے کا دعویٰ کرتا ۔ کبھی مصلح ہونے کا ڈھونگ رچاتا کبھی کرشن کبھی رام جی پھر مسیح موعود اور مہدی مسعود حتٰکہ مسیح ابنِ مریم ہونے کا اعلان بھی کیا۔ 1901ء میں اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ اس کا یہ دعویٰ مسلمانوں کے لیے انتہائی دل آزاری کا باعث تھا۔ علمائے حق نے اس کا تعاقب کیا۔ 

دین اسلام میں عقیدہ توحید کے بعد دوسرا عقیدہ ختم نبوت کا ہے جو بنیادی عقیدہ ہے جس کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا ۔ پہلی امتوں کے لیے اس بات پر ایمان لانا لازمی تھا کہ ان کے انبیاء و رُسل کے بعد اور نبی اور رسول دنیا میں تشریف لائیں گے لیکن اس اُمت پر اس

 بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد قیامت تک کوئی اور نبی اور رسول نہیں آئے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے آخری نبی ہیں ، دین اسلام اللہ تعالٰی کا آخری دین ہے اور قرآن مجید اللہ تعالٰی کی آخری کتاب ہے ۔ سورة المائدہ میں ارشادِ ربانی ہے

" آج میں نے آپ (ﷺ) کے لیے دین کو کامل کر دیا اور آپ( ﷺ) پر اپنا احسان پورا کر دیا اور آپ کے لیے دین اسلام کو پسند کیا. "

اسی طرح سورہ احزاب  میں واضح طور پر فرما دیا کہ

 " حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں البتہ اللہ تعالی کے رسول اور اور آخری نبی ہیں "


میرزے قادیانی کے اس دعوے نے مسلمانوں میں اضطراب اور بے چینی کی ایک لہر دوڑا دی ۔ لہذا علمائے دین نے اس جھوٹے نبی پر کفر کے فتوے دیے ۔ قادیانیت کے اس فتنے کی تمام تر وفاداریاں انگریزوں کے لیے وقف تھیں ۔ فتنہ قادیانیت انگریز طاغوت کا پیدا کرده تھا اور اس کا مقصد مسلمانوں کے اتحاد اور وحدت کا دامن تار تار کرنا تھا۔ مرزا غلام قادیانی کے کفریہ عقائد و نظریات اور ملحدانہ خیالات کا علمائے کرام اور اکابرین اسلام نے بھر پور محاسبہ کیا۔ فتنہ قادیانیت سے نمٹنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر کوششیں کی گئیں ۔ امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری، علامہ انور شاہ کشمیری ، مولانا ظفر علی خان ، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر بیسیوں علمائے کرام نے متحد ہو کر عقیدہ ختم نبوت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا ۔ پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے  مرزا قادیانی کے ساتھ مباہلہ کے چیلنج کو قبول فرمایا مگر مرزا قادیانی بھاگ گیا ۔


 26 مئی 1908 کو جھوٹی نبوت کا دعوے دار یہ شخص اپنے برے انجام کو پہنچا ۔ تو اس کا علمی معاون حکیم نور الدین جانشین مقرر ہوا - 1914 کو یہ بھی وفات پا گیا ۔ اب مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر الدین محمود اس فتنہ پرور جماعت کا سربراہ مقرر ہوا ۔ جس پر ایک جھگڑا کھڑا ہو گیا اور مولوی محمد علی الصوری اس جماعت سے الگ ہو گیا اور اس نے انجمن احمدیہ کے نام سے الگ جماعت بنا لی جو لاہوری گروپ کے نام سے مشہور ہوئی ۔ مرزا بشیر الدین محمود بہت شاطر شخص تھا، اس نے قادیانی جماعت کو مضبوط کرنے کے لیے اس کی تنظیمِ نو کی اور اپنی تشہیر کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ۔


پاکستان میں قادیانی جماعت کا مرکز ضلع چنیوٹ سے چھے سات کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے چناب کے پار " ربوہ " کے مقام پر ہے جسے اب چناب نگر بھی کہتے ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد اس وقت کے پنجاب کے گورنر سرفرانسس موڈی نے پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ سر ظفر اللہ خاں جو خود بھی قادیانی تھا کی سفارش اور کوشش سے ایک آنہ فی مرلہ کے حساب سے 1033 ، ایکٹر زمین قادیانیوں کو 100 سال کی لیز پر دے دی ۔ اور اسے شہر کا درجہ دے دیا ۔ 1974 سے پہلے یہاں کوئی مسلمان داخل نہیں ہو سکتا تھا۔


22 مئی 1974 کا واقعہ ہے کہ نشتر میڈیکل کالج کے طلبا پشاور کے تفریحی دورے کے لیے ریل کے ذریعے سفر کر رہے تھے ۔ جب گاڑی ربوہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو قادیانیوں نے انھیں لٹریچر دیا ۔ جس پر مسلمان طلباء نے احتجاج کیا اور یہ لٹریچر لینے سے انکار کر دیا۔ اور ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے اس پر لٹریچر تقسیم کرنے والوں اور طلبا کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی ۔ 29 مئی  1974 کو جب یہ طلبا واپس آرہے تھے تو طلبا کی گاڑی کو خلافِ ضابطہ ربوہ اسٹیشن پر روک کر مرزا طاہر قادیانی کی قیادت میں قریباً ایک ہزار قادیانیوں نے جو کہ مسلح تھے نہتے طلبا پر حملہ کر دیا۔ جس سے 30 کے قریب طلبا شدید زخمی ہوئے۔ اس واقعے سے پورے ملک میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ دینی جماعتوں کی اپیل پر مختلف شہروں میں ہڑتالیں اور مظاہرے ہوئے اور یہ مطالبہ ضرور پکڑ گیا کہ قادیانیوں کو قانونی طور پر غیر مسلم قرار دیا جائے۔ اس وقت ملک میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت تھی ۔


اس وقت کی قومی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبد المصطفیٰ اظہری، پروفیسر غفور احمد مولانا مفتی محمود ، نواب زادہ نصراللہ خان، مولانا عبدالحق اور دیگر علماۓ کرام موجود تھے ۔ لہذا مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں 44 ممبران کے دستخطوں کے ساتھ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا بل پیش کیا گیا ۔ اور 30 جون 1974 ء کو قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قرار داد پیش کی گئی کہ ان فتنہ پرور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ یہ قرار داد پیش کرنے کا اعزاز علامہ شاہ احمد نورانی رحمة اللہ علیہ کو حاصل ہوا ۔ قومی اسمبلی میں قادیانی جماعت کے دونوں گروپوں ربوہ گروپ اور لاہوری گروپ کو اپنے اپنے عقائد اور جماعتی موقف پیش کرنے کا کہا گیا ۔ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر پر گیارہ روز تک جرح کی ۔ ان تمام امور میں انھیں علاقہ شاہ احمد نورانی،  مولانا مفتی محمود ، نوابزادہ نصر الله ، مولانا محمد یوسف بنوری ، علامہ عبدالستارخان نیازی سمیت دیگر بہت سارے جید علما اور اکابرین کی بھر پور معاونت حاصل رہی ۔ وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی

بھٹو مرحوم نے دور اندیشی اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قرار داد کی بھر پور اور مکمل حمایت کی۔ 

بالآخر قومی اسمبلی نے 7 ستمبر 1974ء کو 4 بج کر 35 منٹ پر قادیانیوں کو قانونی طور کافر قرار دے دیا۔ اور آئینِ پاکستان کی شق (2) 160 اور 260(3) میں اس کا مستقل اندراج کر دیا لیکن قانون اور شریعت کی رو سے غیر مسلم ہونے کے باوجود یہ  طبقہ مسلسل اسلامی شعائر استعمال کرتا رہا ۔ چنانچہ 26 اپریل 1984ء کو حکومت نے امن و امان کی صورتِ حال کے پیشِ نظر امتناعِ قادیانیت آرڈینس جاری کیا جس میں قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے " قانوناً " روک دیا گیا۔"


قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ 1974ء میں اسوقت کی منتخب پارلیمان نے اتفاق رائے سے کیا تھا۔ قادیانی جماعت دورِ حاضر کا ایک فتنہ ہے ۔ جسے انگریز سرکار نے پیدا کیا اور پروان چڑھایا ۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاتم النبین ہیں ، جس کا مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی اور نبیوں کے سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں ۔ خود رب العالمین نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین یعنی سب نبیوں سے آخری نبی فرمایا (سورہ احزاب آیت 40)


7 ستمبر ہماری تاریخ کا روشن اور تاریخ ساز دن ہے ۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے مسلمانوں نے ایک طویل جد و جہد اور لازوال قربانیوں کے بعد پارلیمنٹ سے آئینی طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوا کر 7 ستمبر کے دن کو تاریخ ساز دن بنا دیا۔ جبکہ اپنے باطل عقیدہ اور کسی بھی جھوٹے مرزے کو نبی تسلیم کرنے سے ہر قادیانی بنیادی طور پر ہی کافر ہوتا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی نسلوں کو 7 ستمبر کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ پاکستانیوں کے لیے یہ دن یومِ فضائیہ اور دفاعِ وطن کے حوالے سے بھی بہت اہم ہے ۔