گزشتہ پندره دن سے لاہور، ملتان، سیالکوٹ گوجرانوالہ ،پشاور سمیت ملک کے بہت سے شہر سموگ کی لپیٹ میں ہیں جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے لاہور گزشتہ کئی دنوں سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے جو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرے کا الارم ہے
اس بار حکومت پنجاب کے سخت اقدامات کی وجہ سے ہمارے کسانوں نے فصلوں کی باقیات نہیں جلائیں لیکن ہندوستانی پنجاب کی حکومت نے ا پنے کسانوں کو کسی قسم کی وارننگ جاری نہیں کی نومبر دسمبر میں ہواؤں کا رخ ہمیشہ مشرق سے مغرب کی طرف ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہندوستان سے آنے والے گرد و غبار اور دھوئیں نے پاکستان کے بارڈر کے قریب جتنے بھی شہر ہیں سب کی فضا کو آلودہ کر دیا ہے
اس سموگ سے نظام تنفس میں خرابی
آ نکھوں میں جلن ،گلے کی خرابی ،سینے کی انفیکشن، جلد کی امراض میں اضافہ ، خارش، قوت مدافعت میں کمی واقع ہو رہی ہے جو بالخصوص بچوں اور بزرگوں کو زیادہ متاثر کر رہی ہے ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال تقریبا 4.2 ملین افراد فضائی آ لودگی سے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو ان کی اموات کا سبب بنتی ہیں
ہم اپنے طور پر صرف سموگ سے احتیاط کر سکتے ہیں اس لیے گھر سے باہر نکلتے وقت ماسک کا استعمال لازمی کریں عینک لگائیں گھر کی کھڑکیاں دروازے بند رکھیں جب گھر واپس آئیں تو فوری طور پر
آ نکھوں اور منہ کو صابن سے ساتھ دھو کر صاف کر لیں نیم گرم پانی سے غرارے کریں ادرک اور پودینے کے قہوہ کا استعمال معمول بنا لیں تاکہ سموگ کی دہشت گردی سے اپنے آپ اور اپنے بچوں کو محفوظ بنا سکیں
سموگ سے بچاؤ اور اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے حکومت پنجاب ہاتھ پاؤں مار رہی ہے لیکن افسوس کہ ابھی تک کوئی
خاطرخواہ فائدہ حاصل نہیں ہو سکا سموگ میں کمی کے لیے کاروباری اوقات کو کم کرنا ڈیزل انجن والی گاڑیوں کو مکمل فٹنس کے بعد سڑکوں پر آنے کی اجازت دینا لیکن اس کے باوجود بھی بہت اچھے نتائج حاصل نہیں ہو سکے
جناب وزیرعلی فضائی آلودگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بڑا اور موثر اپریشن کرنا ہوگا سموگ کے دنوں میں ہر سال گزشتہ سال کی نسبت اضافہ ہوتا جا رہا ہے فضائی آلودگی ہر سال گزشتہ ریکارڈ توڑ رہی ہے پاکستان جس کی پہچان کبھی چار خوبصورت موسم ہوا کرتے تھے فضائی
آلودگی نے اسے خطرناک حد تک متاثر کیا ہے 1990 میں پاکستان میں خطرناک دنوں کی تعداد 52 تھی جو اس سال بڑھ کر 150 ہو چکی ہے ان خطرناک دنوں میں سموگ، فوگ اربن فلڈنگ، ڈینگی ،گرم ترین دن ،ٹھنڈے ترین دن شامل ہیں
ماہرین موسمیات کے مطابق اگر بروقت موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو خدشہ ہے کہ آئندہ پانچ چھ سالوں میں لاہور کو رہائش کے لیے خطرناک ترین شہر قرار دے دیا جائے گا
جناب وزیراعلی ویسے تو آپ کے پاس بہت سے قیمتی اذہان موجود ہیں اگر وہ آ پ کو کوئی قابل عمل تجاویز
پیش نہیں کر پا رہے تو میں آ پ کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں
سب سے پہلے آپ کو ہندوستانی پنجاب سے بات کرنی ہوگی مجھے یقین ہے کہ فضائی
آ لودگی چونکہ ایک انسانی مسئلہ ہے وہ
آپ کا مشورہ ضرور مانیں گے اگر وہ اس میں سنجیدگی نہیں دکھاتے تو فورا عالمی عدالت سے رابطہ کریں کیونکہ ہمارے لوگوں اور ہمارے بچوں کی جانیں سب سے قیمتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی کرتار پور راہداری بند کر دیں جب تک وہ کوئی سنجیدہ اقدام نہ اٹھائیں راہداری بند رکھیں
انڈیا ،چین، ابوظبی اور بہت سے دوسرے ممالک نے فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے سموگ ٹاور لگائے ہیں جو تقریبا ایک کلومیٹر کے ریڈیس میں سموگ کو اپنے اندر کھینچ کر ضائع کر دیتے ہیں یہ ٹیکنالوجی بہت مہنگی نہیں ہے ویسے بھی ہمارے نیسٹ یونیورسٹی کے طلبہ نے فضائی
آلودگی سے نپٹنے کے لیے کچھ آ لات تیار کیے ہیں اور اس کا کامیاب تجربہ بھی کر چکے ہیں انہی طلبہ کے لیے وزیر اعلی ہاؤس میں دعوت کا اہتمام کریں انہیں اخراجات اور تنخواہیں دیں یہ آپ کے صوبے کو فضائی آلودگی سے محفوظ کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیں گے اگر طلبہ اس پروجیکٹ پر تیزی سے کام شروع کر دیتے ہیں تو روزانہ کی بنیاد پر پانچ چھ فین تیار ہو سکتے ہیں اس کا مطلب کہ روزانہ پانچ سے چھ سو کلومیٹر مربع کی فضا کو
آ لودگی سے پاک کیا جا سکتا ہے ان کو مختلف اونچی عمارتوں کی چھتوں اور مناسب جگہوں پر نصب کر دیا جائے اور دوسرے مرحلے میں ان کو بڑی تعداد میں بنا کر پاکستان اور ہندوستان کے بارڈر کے قریب تنصیب کر دی جائے تاکہ جیسے ہی ہندوستان سے دھواں اور گرد و غبار پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو اسے وہیں پر زائل کر دیا جائے میرے خیال میں اس سے کافی حد تک شہروں اور شہریوں کو بچایا جا سکتا ہے
اس کے ساتھ جس طرح ماضی اور حال میں زرعی زمینوں کو سوسائٹیوں میں تبدیل کیا جاتا رہا ہے اسے روکنا ہوگا شجرکاری کو تیز کرنا ہوگا اس کے لیے ساون بھادوں کا انتظار نہ کریں پودوں کی کوئی ایسی بریڈ تلاش کریں جو گرمی سردی میں یکساں اور تیزی سے پھیلے درختوں کی بہتات سے بہت حد تک فضائی آلودگی پر قابو پایا جا سکتا ہے اس کے علاوہ لاہور کے اندر انڈسٹریل اسٹیٹس میں دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں، بھٹوں، سٹیل ملوں وغیرہ کو تیزی سے جدید زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جائے اور وہ آلات جو سموگ کو زائل کرتے ہیں ان تمام فیکٹریوں میں لگانے کی پابندی کروائ جائے موجودہ صورتحال پر فل فور قابو پانے کے لیے بادلوں کا انتظار کیا جائے جیسے ہی بادل
آ ئیں مصنوعی بارش برسا کر ایک دفعہ فضا کو صاف کر دیا جائے تو امید ہے آنے والے ایک مہینے تک فضا صاف رہے گی فضائی آلودگی کوئی ایک دن کا مسئلہ نہیں یہ ہر سال ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی لیکن اس پر قابو پانے اور اس کے انڈیکس کو کم کرنے کے لیے راہیں تلاش کرنی ہوں گی تاکہ پنجاب اور اس کے باسی صاف ستھری اور پرسکون زندگی گزار سکیں