حضرت سلیمان علیہ السّلام، اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی اور حضرت داؤد علیہ السّلام کے فرزندارجمند ہیں۔قرآنِ مجید کی سات سورتوں میں سولہ مقامات پر حضرت سلیمان ؑ کا تذکرہ ہے۔ سورۃ البقرہ، سورۃ النساء ، سورہ الانعام اور سورہ سبا میں ایک، ایک بار، سورہ ص میں دو جگہ، سورۃ الانبیاء میں تین بار جب کہ سورہ نمل میں سات مقامات پر آپؑ کا ذکر ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کی دعا پر انھیں عظیم الشان حکومت عطا فرمائی تھی۔آپ ؑ ہفت اقلیم کے بادشاہ تھے اور دنیا کی ہر شے آپ ؑ کی مطیع اور فرماں بردار تھی یہاں تک کے جنات اور شیاطین بھی آپؑ کے تابع تھے۔حضرت سلیمان ؑ کو بڑی بڑی اور خوبصورت عمارتیں بنانے کا شوق تھا۔جنات آپؑ کے حکم پر بڑے بڑے محل تعمیر کرتے اور سمندر کی تہہ سے قیمتی موتی،ہیرے جواہرات نکال کر لاتے۔حضرت سلیمان ؑ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ معجزات میں سے ایک پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے تھے جن سے جنات بڑی بڑی دیگیں،لگن،برتن اور بحری جہاز تیار کرتے تھے۔جنات کے دو گروہ تھے۔ایک اہل ایمان اورنیک جن تھے جبکہ دوسرے کافر تھے جنھیں شیطان جن کہا جاتا ہے۔اہل ایمان،نیک جنات حضرت سلیمان ؑ کا حکم مذہبی فریضہ سمجھ کر پورا کرتے تھے۔کافر اورشیطان جنات سرکشی کے باوجود حضرت سلیمان ؑکے تابع فرمان رہتے۔کافر جنات سے نقصان کا بھی اندیشہ تھا اس لیے اللہ تعالیٰ حضرت سلیمان ؑ کو کافر جنات سے حفاظت فرمائی۔ سورہ سبا میں ارشاد باری تعالیٰ ہے'' جو کوئی اُن میں سے ہمارے حکم سے پِھرے گا، اُس کو ہم آگ کا مزا چکھائیں گے (آیت 12)۔''مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر فرما دیا تھا جس کے ہاتھ میں آگ کا سونٹا ہوتا تھا ۔جو جن بھی حضرت سلیمان ؑکے حکم سے سرتابی کرتا، فرشتہ اُسے سونٹا مارتا جس سے وہ جل کر بھسم ہوجاتا (فتح القدیر)۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان ؑ کوبچپن سے ہی علم و حکمت سے نواز رکھا تھا۔ ایک مرتبہ ایک چرواہے کی بکریاں کسی کسان کے کھیت میں گھس گئیں اور چرتے چرتے سارا کھیت برباد کردیا۔چرواہے کواس بات کی خبر ہوئی تو اپنی غفلت پر پریشان ہوا کہ اب کھیت کا مالک اس سے ہرجانہ طلب کرے گا۔ادھر کھیت کے مالک کو جب معلوم ہوا کہ اس کا کھیت چرواہے کی بکریوں نے تباہ و برباد کردیا ہے تووہ اپنا مقدمہ حضرت داود علیہ السلام کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا۔حضرت داود ؑ نے چرواہے اور کھیت کے مالک کسان کی پوری بات سنی اور فیصلہ دیا کہ کھیتی کانقصان بکریوں کے ریوڑ کی قیمت کے برابر ہے اس لئے چرواہا اپنا پورا ریوڑ، تاوان کے طور پر کسان کو دے دے۔فیصلہ سن کر چرواہا اور کسان عدالت سے باہر نکل آئے۔دروازے پرنوعمر حضرت سلیمانؑ سے ملاقات ہوگئی ۔آپؑ نے مقدمہ کے بارے میں ان سے دریافت کیا۔چرواہے اور کسان نے پورا واقعہ اور پھر اس کے بعد ہونے والا فیصلہ حضرت سلیمان ؑ کو سنایا۔حضرت سلیمان ؑ دونوں کو دوبارہ اپنے والد محترم حضرت داود ؑ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے اور گذارش کی کہ'' اگر اجازت دیں تو اس فیصلے سے متعلق اپنی رائے پیش کرنا چاہتا ہوں۔''حضرت داود ؑ نے اجازت دے دی تو حضرت سلیمان ؑ بولے ''کسان کو بکریاں دے دیں تاکہ وہ ان کا دودھ حاصل کرکے فائدہ حاصل کرتا رہے اورکسان کا کھیت چرواہے کو دے دیں تاکہ وہ کاشت کرکے کھیت کو اسی حالت میں لے آئے جیسا بکریوں کے چرنے سے پہلے تھا۔جب کھیت تیار ہوجائے تو کسان چرواہے کی بکریاں واپس کردے اور چرواہا کسان کا کھیت اسے واپس کردے ،اس طرح کسان کو ہرجانہ بھی مل جائے گا اور چرواہا اپنی بکریوں سے ہمیشہ کے لئے محروم بھی نہ ہوگا۔''حضرت داؤد ؑ کو یہ فیصلہ بہت پسند آیا ۔اس واقعہ کا ذکر قرآنِ کریم میں بھی ہے۔ ارشادِ باری ہے ''اور داؤدؑ اور سلیمانؑ کو یاد کیجیے، جب کہ وہ کھیت کے معاملے میں فیصلہ کر رہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چَر گئیں (روندگئی) تھیں اور ہم اُن کے فیصلے میں موجود تھے اور ہم نے اُس کا صحیح فیصلہ سلیمانؑ کو سمجھا دیا۔(سورۃ الانبیاء 78,79)