ریاضی دان قرآن میں خامی ڈھونڈتے ہوۓ کیسے مسلمان ہوا

قرآن پاک اور رمضان شریف میں ایک خاص نسبت یہ ہے کہ یہ کتاب عظیم،یہ قرآن مجید جسے اگر معجزوں کا معجزہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، رمضان شریف میں ہی لوح محفوظ آسمان سے زمین پر اتارا گیا اور پھر بتدریج کم و بیش تئیس برس تک آیات ,وحی کی شکل میں نبیء پاک صل اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہوتا رہا,, یہ ایک ایسا زندہء جاوید معجزہ ہے جو رہتی دنیا تک محفوظ حالت میں ہے اور اسکی حفاظت کا ذمہ خود رب ذوالجلال نے لیا ہے،آج کی جدید اور ماڈرن دنیا کے ملحدین سے لے کر زمانہ ء قدیم تک کے کفار و مشرکین کو قرآن پاک نے بار بار اپنی آیات مبارکہ کے ذریعے سے یہ چیلنج دے رکھا ہے کہ اگر تم لوگ یعنی کفار اسے انسانی کلام سمجھتے ہو تو اس جیسی ایک آیت ہی بنا کر دکھادو،، اور مزید یہ کہ چاہے دنیاوی علوم ترقی کی کسی بھی معراج پر پہنچ جائیں ،کبھی اس کتاب مقدس میں کوئ خامی نہیں نکال سکتے،اسمیں بیان کردہ کسی معلومات میں چاہے وہ اخلاقی اصول ہوں یا سائنسی کبھی کوئ غلطی تلاش نہیں کر سکتے،اس دعویء قرآنی  کے بعد پچھلے پندرہ سو برس میں،کفار،ملحدین،مستشرقین ،عربی زبان و ادب کے غیر مسلم فضلاءاور فلاسفہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن اس قرآنی دعوے کو غلط تو کیا ثابت کر پاتے اکثر کو خود ہی ہدایت مل گئ،،،قرآن پاک کے بے شمار معجزاتی پہلو ہیں،،اور کیونکہ آج کل سائنس و ٹیکنالوجی کا بڑا زور اور غلغلہ ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی کی روح اور بنیاد علم ریاضی اور اعداد یعنی نمبرز پر رکھی گئ ہے اس لئے اس تحریر میں چند معجزاتی ریاضیاتی حقائق قرآنی بیان کرنے کی عاجزانہ جسارت کی گئ ہے،،
ڈاکٹر گیری ملر (Gary Miller) کینڈا کے ریاضی دان اور اک پرجوش عیسائی مشنری تھے ، ریاضی کے ذریعے کسی بھی چیز کا منطقی یا غیر منطقی ہونا ثابت کیا جاسکتاہے, اس کو دیکھتے ہوئے انہوں نے قرآن مجید میں خامی ڈھونڈی شروع کی . مقصد یہ تھا کہ اس سے عیسائیت کی تبلیغ میں مدد ملے گی، لیکن جب انہوں نے قرآن مجید پر تحقیق کی تو نتائج بالکل برعکس نکلے۔ گیری قرآن مجید میں کوئی بھی خامی ڈھونڈنے میں ناکام رہے اور بالاخرقرآنی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور عیسائیت کی بجائے اسلام کے مبلغ بن گئے۔ان کے مختلف لیکچرز مختلف سائیٹس پر موجود ہیں۔
اب آئیے ایک اور حیرت انگیز بات کی طرف کہ انیس(19) کے عدد اور قرآن پاک میں ایک حیرت انگیزسا ربط موجود ہے۔اس دریافت مصری ڈاکٹر پی ایچ ڈی ڈاکٹر راشد خلیفہ کے سر ہے جو ایک امریکن یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے،1968 میں انہوں نے قرآن پاک کے مکمل متن کو کمپیوٹر پر منتقل کیا اور سیکوینس اینڈ سیریز کے ریاضیاتی اصولوں پر اسکے متن میں کوئی حسابی ربط تلاش کرنے کی کوشش شروع کی ابتدا میں وہ اکیلے ہی جانبِ منزل چلے تھے مگر پھر کارواں بنتا گیا اور یہ کام ایک گروپ اسٹڈی میں تبدیل ہوتا گیا حتی کہ 1972 میں یہ ایک پورا اسکول بن گیا جو اسی موضوع پر تحیقق کے دیئے جلانے میں جٹا ہوا تھا۔ جیسے جیسے ریسرچ کا یہ کام آگے بڑھا ان پر کلام پاک کی اعجاز آفرینی کھلنا شروع ہوئی اور ان کتاب عظیم کے حروف و الفاظ میں انہیں ایسے روابط اور ایسی تراتیب نظر آئیں جو حیرت انگیز تھیں۔  ان ہی میں سے ایک 19 کا عدد بھی ہے۔انیس(19) کا لفظ قرآن پاک میں سورہء مدثر میں آیا ہے جہاں اللہ پاک نے فرمایا:
"ہم نے دوزخ پر انیس محافظ فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے"
اب قرآن پاک کا آغآز بسم اللہ  سے ہوتا ہے اور بسم اللہ الرحمان الرحیم کے کل حروف انیس ہیں۔ پھر دیکھیں کہ بسم اللہ الرحمان الرحٰم میں چار الفاظ ہیں ۔پہلا لفظ اسم ہے جو پورے قرآن میں 19 مرتبہ استعمال ہوا ہے،دوسرا لفظ الرحمان ہے جو 57 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو (3x19)کا حاصل ہے۔ تیسرا لفظ الرحیم ہے جو 114 مرتبہ آیا ہے جو (6x19) کا حاصل ہے۔ چوتھا لفظ اللہ جو 2699 مرتبہ پورے قرآن پاک میں آیا ہےجو(142x19) کا حاصل ہے،لیکن یہاں ایک باقی بچتا ہے جوخدا کی وحدانیت اور ایک ہونے پر مشیر ہے۔قرآن پاک کی کل سورتیں 114 ہیں جو(6x19) کا حاصل ہے۔سورہء توبہ کے آغاز میں بسم اللہ نہیں ہے لیکن سورہ نمل کی آیت نمبر تیس میں مکمل بسم اللہ نازل کرکے گویا اس 19 کے ربط کے فارمولے کی توثیق کی گئی ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ فارمولا فیل ہوجاتا۔ اب آئیے نبی کریم ﷺ پر اترنے والی پہلی وحی کی جانب، یہ سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات ہیں جن کے کل الفاظ 19اور کل حروف 76 ہیں جو (4x19)کا حاصل ہیں،اور مزید یہ کہ تمام سورہ علق کے کل حروف کی تعداد 304 ہے جس کے اجزائے ضربی4  x 4x19 بنتے ہیں اور 19 موجود ہے۔ اور قرآن پاک کی نازل ہونے والی یہ پہلی سورہ علق اس کتاب مقدس کی ترتیب کے لحاظ سے 96 ویں سورہ ہے۔ اگر آخری سورہ والناس سے اس کی جانب آئیں تو اس کانمبر 19 بنتا ہے اور اگر ابتدا سے دیکھیں تو اس سے پہلے کی سورتیں ہیں 95، جو(5x19) کا حاصل ہے۔ اب نزول کے اعتبار سے قرآن پاک کی سب سے آخری سورہ نصر ہے اور یہاں بھی 19 کا نظام موجود ہے کہ یہ سورہ مبارکہ ٹھیک انیس الفاظ پر مشتمل ہے یوں  نازل ہونے کی ترتیب سےکلام پاک کی پہلی اور آخری سورہ ایک خاص حسابی ربط اور قاعدے سے نازل شدہ ہیں جن میں 19 کے عدد کو کوئی خاص اہمیت حاصل ہے۔
ابھی تو بہت سی ایسی ہی عقل کو دنگ کردینے والی باتیں اور حقائق قرآن پاک میں موجود ہیں جنہیں آپ مروجہ عصری سائنسی علوم کے کسی بھی پیمانے پر بلا جھجک پرکھ سکتے ہیں اور کوئی غلطی کبھی نہیں نکال سکتے۔ اگر موقع ملا تو ان پر بھی بات ہوگی لیکن فی الحال جاتے جاتے صرف یہ کہنا ہے کہ یہ کتاب ساری انسانیت کے لئے ایک امانت کا درجہ رکھنے والی آزاد کتاب ہے اور ساری انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے اور دنیا کے ہر اس شخص کے لئے امانت ہے جس نے اس کے نزول کے بعد آنکھ کھولی یا مستقبل میں کھولے گا لیکن اس کے اصل وارث وہ لوگ ہیں جو تحقیق ،جستجو،تدبر،تفکر کا مزاج رکھنے والے ہوتے ہیں اور جنہیں خدا کی طرف سے عقل سلیم،شعور اورکمالِ علم عطا کیا جاتا ہے تو ایسی لاثانی و عدیم النظیر کتاب ایسے قیامت تک باقی رہنے والے زندہ و تابندہ معجزے کا احترام کرنا ہر شخص کے لئے کیا ضروری نہیں ہے؟ چاہے وہ کسی بھی عقیدے یا مذہب کا پیروکار ہو۔

تحریر: خرم علی راو۔ مصنف پیشہ کہ اعتبار سے معلم ہیں،کالم نگاری سے عرصہ دراز سے وابسطہ ہیں، ترجمہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔

نوٹ: اپنے دوست احباب کیساتھ فیسبک یا واٹس ایپ پر شئیر کرنے کیلئے نیچے متعلقہ سوشل میڈیا ایپ کہ Logo پر کلک کریں، اور شئیر کریں۔