عمرانیاتی نقطہ نظر

عمرانیات سماجی رویوں، تنظیموں اور اداروں کے مطالعہ کا نام ہے؛ عمرانیات کا معاشرے سے گہرا تعلق وابستہ ہے جو معاشرے میں ہونے والی بدنظمی، تصادم، انحراف، معاشرتی مسائل اور معاشرے میں رُونما ہونے والے سماجی تغیر کو تنقیدی، تحقیقاتی و تجرباتی بنیاد پر بھی مطالعہ کرتی ہے اسی لیے عمرانیات کو معاشرے کی سائنس کہا جاتا ہے. عمرانیات میں ماہر سماجیات رونما ہونے والی تبدیلیوں پر اپنا نقطہ نظر و نظریہ پیش کرتے ہیں تا کے پڑھنے والوں کو معاشرے کی تبدیلی کی اصل وجہ سے روشناس ہو سکیں. عمرانیات میں معاشرے کے افراد کی تربیت کے کچھ اہم ارکان بیان کیے گئے ہیں جن میں خاندان، دوست، سکول، مذہبی گروہ اور میڈیا شامل ہے جو افراد میں اقدار و روایات کی تشکیل کرتے ہیں اور ایسا خاکہ تیار کرتے ہیں جو عقائد اور رسم و رواج نسل در نسل منتقل ہو سکیں.
آج کے اس کالم میں میڈیا جسے عمرانیات میں تربیت کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے اسکا عمرانیاتی نقطہ نظر سے تجزیہ کیا جائے گا لیکن یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ میڈیا و ٹیکنالوجی کو بیان کرنے کے لیے یہ چار بنیادی نظریات ناکافی ہونگے. دورِ حاضر میڈیا و ٹیکنالوجی کا دور ہے جہاں معاشرے کا تقریباً ہر فرد اس کے استعمال سے آشنا تو ہے ہی اور یہ اسکی پہنچ میں بھی ہیں. میڈیا معاشرے پر اپنے گہرے اثرات چھوڑتا ہے، اپنے معاشرہ کی عکاسی کرتا ہے اور افراد کو ہر خبر سے باخبر رکھتا ہے. مزید میڈیا اپنے معاشرہ کے افراد میں اقدار و روایات پیدا کرتا ہے، انکا رہن سہن، انکا بولنا کا طریقہ، رسم و رواج، ہماری ثقافت یہ سب میڈیا ہی ہمیں سیکھاتا ہے.
عمرانیات کے چار بنیادی نقطہ نظر میں سب سے پہلے مغلیتی نقطہ نظر ہے؛ جس میں ماہر سماجیات کے  مطابق معاشرہ کا نظام روانی سے چلتا ہے اور معاشرے کا ہر ادارہ ایک دوسرے سے جڑا رہتا ہیں تا کے کسی بھی قسم کی بد نظمی پیدا نہ ہو سکے. آج کی اکیسویں صدی میں دنیا ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر چکی ہے گھر بیٹھے شخص کو دنیا کی خبریں ذرائع ابلاغ کے ذریعے باہم پہنچتی ہیں.
 جب میڈیا افراد کی بنیادی ضروریات کو بیان کرتا ہے تو اس صورت میں سرمایہ درانہ نظام رائج ہو جاتا ہے. آج آپ دیکھتے ہونگے ہر ٹی وی چینلز حتی کہ پرنٹ میڈیا میں ضروریاتِ زندگی سے مشترکہ مصنوعات دکھائی جاتی ہیں جو اپنے دیکھنے والوں پر گہرا اثر ڈالتی ہے. میڈیا منافع ساز صنعت کے طور پر ابھر رہی ہے؛ پہلے کمرشل اشتہارات کچھ اس طرح سے اشاعت کیے جاتے ہیں کے دیکھنے والا سوچتا ہے کے یہ چیز اگر زندگی میں نہ ہو تو زندگی نامکمل ہے. سرمایہ داری کی خاطر میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے تا کے زیادہ سے زیادہ افراد اشتہارات دیکھیں اور زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جا سکے. معروف نامی گرامی کمپنیاں وقت و حالات کی نزاکت سے اشتہارات بناتی ہیں مثال کے طور پر گرمیوں میں مشروبات، بجلی کے آلات جیسے کے فریج و پنکھے، صابن وغیرہ کے اشتہارات زیادہ چلائیں جاتے ہیں، رمضان میں بچت  پیکچز لگائے جاتے ہیں. یہ کمپنیاں مختلف ٹاک شوز و پروگرام کے درمیان جو مخصوص اشتہارات نشر کرواتی ہیں جو اشتہار جتنے زیادہ معیار کا ہوگا اس سے چینل کی ریٹنگ میں اتنا ہی اضافہ ہوگا اس کے ساتھ مصنوعات کی فروخت سامعین میں اتنی ہی بڑھے گی جبکہ بعض اوقات سرمایہ کاری کے مفاد کی خاطر چھوٹی سے چھوٹی مصنوعات کے لیے معروف شخصیات کی مدد لی جاتی ہے کیونکہ یہ بھی کمانے کا ایک ذریعہ ہے. آج کل اشتہارات پہلے میڈیا میں نشر ہوتے ہیں اسکے بعد عام جگہوں پر اشتہارات کو آویزاں کیا جاتا ہے جبکہ بعض اوقات معروف کمپنیاں اپنے مفادات کی خاطر مصنوعات کی فروخت کو بڑھانے کے لئے اکثر سکول کالجز، یونیورسٹی سمیت مالز وغیرہ کا رُخ کرتی ہے اور عوام الناس کو مصنوعات کی فائدے گنوا رہی ہوتی ہیں.
میڈیا کا استعمال عام طور پر بطور تفریح کے طور پر لیا جاتا ہے مختلف پروگرامز و فلم کو دیکھ کر لطف اندوز ہوا جاتا ہے جس سے وقت اچھا گزر جاتا ہے اسکے علاوہ سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ بڑھ رہا ہے جہاں بعض اوقات الیکٹرانک میڈیا سے پہلے سوشل میڈیا پر خبریں عوام تک پہنچتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے الیکٹرانک میڈیا بھی سوشل میڈیا کے ساتھ چل رہا ہو؛ یہی میڈیا کا عیاں کردہ کردار ہے جو سب کو نظر آتا ہے. میڈیا کا پوشیدہ کردار یہ ہے کہ میڈیا و ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال افراد پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے. اب وقت کے ساتھ انسان زیادہ آرام طلب ہوتا جا رہا ہے جہاں ٹیکنالوجی معاشرہ کی ترقی کا سبب بنی وہی کچھ منفی اثرات اس طرح ہے کے زیادہ دیر ٹی وی دیکھنے سے انسان کی نظر پر اثر تو پڑتا ہی ہے اسے ساتھ زیادہ دیر بیٹھنے سے موٹاپا اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماری بڑھ رہی ہیں کیونکہ انسان کی سرگرمیاں ختم ہوتی جا رہی ہیں جیسے کے آج کل بچے ویڈیو گیمز زیادہ کھیل رہے ہیں جس سے ان میں بے چینی و بے سکونی کے علاوہ تشدد اور مزاج میں واضح تبدیلی رونما ہو رہی ہیں.
تصادم کا نقطہ نظر  معاشرہ میں پیدا ہونے والی ناانصافی پر مرکُوز ہے، جب افراد کو مکمل اختیارات حاصل نہ ہوں تو اسکے نتیجے میں معاشرے کے اونچے و کمتر طبقات میں ہنگامی صورتحال پیدا ہوتی ہے. اس نظریہ کے مطابق میڈیا و ٹیکنالوجی  کی ڈور اونچے طبقہ کے ہاتھ میں موجود ہے جو اسے اپنی مرضی سے چلاتا ہے چونکہ کہا جاتا ہے کہ میڈیا ایک آزاد ادارہ ہے اس لیے یہ اپنی آزادی کا استعمال بھی اپنے طریقے سے کرتا ہے. میڈیا سامعین کو جو معلومات فراہم کرتا ہے اس میں اپنے مفادات کی خاطر جوڑ توڑ ضرور کرتا ہے اس طرح کوئی بھی اصل کہانی سے ناواقف رہتا ہے. حالات و واقعات کے پیشِ نظر میڈیا کسی خاص طبقہ، فرقہ، فرد و ثقافت کے لیے رائے قائم کرتا ہے اور باقی سب پر یہ رائے لاگو کرتا ہے کے اسے جیسا ہے جو ہے کے مطابق قبول کرے. مزید میڈیا افراد کو فیسبک، ٹوئیڑ پر مکمل آزادانہ رائے دینے کا قائل نہیں ہیں. میڈیا نا مکمل سچ اور چرب زبانی سے سامعین پر رائے لاگو کرتا ہے؛ یہ رائے بناتا بھی ہے اور رائے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے کیونکہ میڈیا عوام کی توجہ مفادات کی خاطر کسی ایک طرف کروا دیتی ہے تو اس طرح معاشرہ تصادم کا شکار ہو جاتا ہے، بے معنی و سنسنی خیز خبریں افراد میں بے چینی و بے سکونی کا سبب بنتی ہیں.
تعاونی نقطہ نظر کے مطابق معاشرے کا انحصار تعاون کی بنیاد پر ہی قائم ہے چونکہ معاشرہ کی تخلیق فرد سے بنتی ہے، جب تک افراد کے مابین تفاعل نہیں ہوگا معاشرہ کی تشکیل ناممکن ہے. معاشرے میں جب فرد گروپ کی صورت میں مل کر رہتے ہیں تو انکی ایک مشرکہ تقویم و تفہیم پیدا ہوتی ہے. میڈیا پر جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ سب ہماری سوچ، نظریہ و ثقافت میں بس چکا ہے. میڈیا اکثر جو خبر دتیا ہے وہ حقیقت میں نہیں ہوتی بلکہ خبر کی تشکیل ایسی کمال مہارت سے کرتا ہے کہ سامعین جو دیکھ رہے ہوں وہ انہیں سچ لگے. میڈیا کے ذریعے انسان اپنے اندر لاشعوری اور شعوری طور پر اپنی ذات کی ایک نئی تخلیق بنا رہا ہوتا ہے. جیسے کہ کہا جاتا ہے کے انسان اپنی ذات کا دوسروں سے موازانہ کرنے کی صلاحیت و تجربہ رکھتا ہے، اور ایسا وہ وقتاً فوقتاً کرتا رہتا ہے. جب فرد اپنا موازانہ ان لوگوں سے کرتا ہے جن کے بارے میں خیال قائم کرتا ہے کے وہ اُس سے بہتر ہیں تو اس صورت میں فرد میں احساس کمتری و عدم اعتماد پیدا ہو جاتی ہے، دوسری صورت میں فرد جب اپنا موازنہ اپنے سے کمتر کے ساتھ کرتا ہے تو اس صورت میں اس میں اعتماد زیادہ پیدا ہوتا ہے. یہ سب میڈیا کے ذریعے ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ ہمیں سیکھاتا ہے جس سے فرد کی شخصیت متاثر ہوتی ہے.
فیمنزم کا نظریہ عورتوں کے لیے برابری و مساوی حقوق پر کام کرتا ہے. اس نظریہ میں مرد کی طرف سے کیے جانے والے ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کی جاتی ہے؛ مزید فیمنزم عورتوں کو سماجی و معاشی استحصال سے تحفظ دلواتا ہے. جہاں خواتین زندگی کے ہر میدان میں مرد کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہتی ہے وہی فیمنزم میڈیا میں عورتوں کی جانے والی منفی کردار کشی کے خلاف سوال کرتا ہے. میڈیا میں خواتین کی عکاسی سراسر دقیانوسی ہے جو خواتین میڈیا میں پیشے کے طور پر کام کرتی ہیں میڈیا کے خیال کے مطابق وہی خواتین زیادہ بہتر ہیں. مزید میڈیا خواتین کی تجسیم کرتا ہے اور اپنی مرضی سے انکی کردار کشی کرتا ہے، ایسی کردار کشی جو سامعین کو اچھی لگتی ہے تا کہ پروگرام کی ریٹنگز میں اضافہ ہو سکے یہ سب طاقت کی بدولت ہوتا ہے اور طاقت میڈیا کے اختیار میں ہے. اس کے علاوہ کردار کشی کی بنیاد پر عورتوں پر ایک ٹھپہ لگ جاتا ہے جس سے معاشرہ انکو اسی نظر سے دیکھتا ہے جس طرح دکھایا جاتا ہے.
تحریر: سعدیہ اسلم
معاشرتی مسائل پر لکھتی ہیں
ایم-فل،قائداعظم یونیورسٹی،اسلام آباد۔