برصغیر میں انگریز کی آمد کے ساتھ ہی آزادی کی تحریکوں نے وقفے وقفے سے جنم لیا، اسی آزادی کے لیے بلوچستان کے غیور قبائل سے انگریز فوج کا مقابلہ ہوا تو بالا کوٹ کے پہاڑوں میں رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کی افواج کا مقابلہ سید احمد اور شاہ اسماعیل شہید جیسے بہادر مجاہدین سے ہوا۔ تحریک خلافت اسلامی نصب العین کے لیے مسلم انڈیا کے گہرے لگاؤ کی ترجمان تھی، لیکن علی گڑھ تحریک کی سیاسی روایت پسندی اور انگریزوں سے قربت کے خلاف اپنے احتجاجی ردِ عمل میں عقلی حدود سے تجاوز کر گئی۔ اور انگریزوں کے خلاف، یہ طے کرائے بغیر کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کیا ہو گی، مبینہ طور پر ہندوؤں کے ساتھ مل گئی۔ خلافتی علماء نے مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا جس سے شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بڑی تعداد میں جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا اور زبردست اقتصادی تباہی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس اعتبار سے مسلمانوں کی یہ تحریک بھی ناکام رہی۔ تحریک پاکستان سابقہ تحریکوں سے بالکل الگ خواب تھا۔ مسلمانوں کے لیے تحریک پاکستان کی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز قرار داد لاہور (1940ء) سے ہوا۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ اس سے دو سال قبل 1938ء ہی میں دار فانی سے کوچ کر چکے تھے۔ اس اعتبار سے پاکستان کی تحریک اور اس کے حصول کی سات سالہ جدوجہد میں بظاہر علامہ اقبال کا کوئی کردار نظر نہیں آتا لیکن یہ اٹل حقیقت ہے کہ برصغیر ملت اسلامیہ کی بھلائی، بیداری اورآزادی کے سلسلے میں اقبال ایک آزاد مسلم مملکت اور ہندوستان کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے آرزو مند تھے۔ اُن کے مطابق ” مسلمان ہونے کی حیثیت سے انگریز کی غلامی کے بند توڑنا اور اس کے اقتدار کا خاتمہ کرنا ہمارا فرض ہے اور اس آزادی سے ہمارا مقصد یہی نہیں کہ ہم آزاد ہو جائیں بلکہ ہمارا اول مقصد یہ ہے کہ اسلام قائم رہے اور مسلمان طاقت ور بن جائیں۔ ڈاکٹر علامہ اقبال نے مسلمانوں میں ”مسلمان“ ہونے کا احساس پیدا کرنے اور انہیں خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی۔ پھر انہوں نے دو قومی نظریے کو ایک مستقل اصول کے طور پر پیش کر کے پاکستان کےلئے ٹھوس نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ تیسرے مرحلے میں علامہ نے خطبہ الہ آباد کے ذریعے مسلم لیگ کو ایک علیحدہ اسلامی مملکت کی راہ سجھائی اور خود لیگ میں شامل ہو کر براہ راست اسے فیض پہنچایا۔
غلامی کے بارے میں آپ نے فرمایا:
دل مردہ، دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ!
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ!
غلامی محض دلوں ہی کو پردہ کرنے پر بس نہیں کرتی ہے بلکہ غلاموں کو تب وتاب تگ و دو اور سوزعمل سے بھی محروم کردیتی ہے جس کے نتیجے میں مُروُر ان پر حرام ہوجاتا ہے۔
نے نصیب مارو کثردم نے نصیب دام دو
ہے فقط محکوم قوموں کیلئے مرگ ابد!
جب کہ آزاد قوموں کے افراد مرکر بھی نہیں مرتے ہیں
مرکے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام
گرچہ ہرذی روح کی منزل ہے آغوش لحد!
اس کلام سے جہاں یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ آزادی کیا ہے اور غلامی کیا؟ وہیں علامہ اقبالؒ کا نظریہ آزادی و غلامی بھی کھل کر سامنے آتا ہے۔ بال جبریل میں آزادی افکار ہی کے عنوان سے چار اشعار پر مبنی نظم ہے جس میں نہایت دو ٹوک اور جامع انداز میں ڈاکٹر علامہ اقبال نے بتایا ہے کہ آزادی افکار کی اصل حقیقت کیا ہے فرماتے ہیں۔
جودونی فطرت سے نہیں لائق پرواز
اس مرغکِ بیچارہ کا انجام ہے افتاد
ہرسینہ نشیمن نہیں جبریل امین کا
ہر فکر نہیں ظاہر فردوس کا صیاد
اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
گو فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
(آزادی افکار: بال جبریل)
علامہ اقبالؒ کے بہت سے کمالات میں ایک اہم کمال یہ ہے کہ وہ جس معاملے میں غیر اللہ اور غیر اسلامی طور طریقوں یا نظریوں کو ہدف تنقید بناتے ہیں اس معاملے میں صحیح اور مستقیم صراط کیلئے رہنمائی بھی فرماتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ آزادی کے لیے ایسے وطن کے خواہشمند تھے جو ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست ہو۔ سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر علامہ اقبال کے خواب کی عملی تعبیر ہوئی ؟ اور اس وقت پاکستان کہاں کھڑا ہے ؟ آئیے مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔
ڈاکٹر علامہ اقبال رحمہ اللہ آزاد خطے کی تعبیر میں آج کے موجودہ پاکستانی خطوں کا خصوصی تذکرہ کرتے ہیں، وہ بلوچستان اور سندھ کو پاکستان میں ضم ہونے کا عندیہ اپنی زندگی میں ہی دے چکے تھے، آج لسانی تقسیم کی بنیاد پر ہم نے جہاں ایک ملک کے باشندے ہوتے ہوئے ایسے خلیج اور پاٹ پیدا کر رکھے ہیں کہ یک جان دو قالب کی جگہ یک قالب دو جان کا مترادف ہیں۔ ریاست کا بلوچستان اور بلوچ باشندوں کا ریاست پر اعتماد ناہمواری کا شکار ہے، لہذا ہمیں اقبال کے خواب کو حقیقی معنوں میں شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے قومیت اور لسانیت کے بت توڑنے ہوں گے، تاکہ پاکستان کی عوام باہم اتحاد و اتفاق سے ہمکنار ہو کر سقوطِ ڈھاکہ جیسے مزید سانحات سے بچ سکے۔ اقبال رحمہ اللہ جہاں ایک جانب الگ خطے کی بات کرتے تھے وہیں وہ اس الگ خطے کو مذہبی آزادی سے ملحق کرتے تھے، وہ غرناطہ اور قرطبہ کے تذکرے میں ایک الگ ریاست اور وہاں مذہبی آزادی کے قائل نظر آتے ہیں، لہذا یہی وجہ تھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ نے ریاست کی بنیاد اسلام پر رکھی، یہ اسلام ہی ہے جو دینی معاملات کے ساتھ ساتھ تمام۔ تر سماجی، معاشی اور سیاسی معاملات میں ریاست اور عوام کو یکساں رہنمائی فراہم کرتا ہے، لہذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلام کی رہنمائی کو بنا کسی تفریق پوری پاکستانی عوام کے لیے یکساں معیار بنائیں، تاکہ خطے کے ہر باشندے کو اس کے حقوق کی طلب و رسد میں توازن مل سکے۔
معزز قارئین! اقبال کا خواب، قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ اور ان کے دوستوں کی محنت اور کوششوں سے تعبیر سے ہمکنار ہوا۔ الحمدللہ 14 اگست 1947 کو ہم نے اس خواب کی تعبیر کے نتیجے میں پاکستان جیسی عظیم الشان ریاست حاصل کی۔ آج ہماری تعداد اس وقت کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے، لیکن اس کے باوجود ہم پستی، کم ہمتی اور زوال کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، لیکن یہ مٹی بڑی زرخیز ہے، ہم سب کو مل کر اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم دنیا کو بتا سکیں کہ اس ریاست کا حقیقی مقصد دنیا میں حکومتی، ریاستی اور سماجی مثال قائم کرنا تھا، صرف خطے کا حصول نہیں۔ اور ہمارے اکابرین، بالخصوص علامہ محمد اقبال، محمد علی جناح، اور دیگر رہنماؤں کی سوچ آفاقی تھی، وہ جانتے تھے کہ دنیا کی قیادت کے لیے موزوں افراد سازی اسی خطے کی کوکھ سے جنم لے گی۔