تحریر: محمّد عارف گل ( سینئر انسٹرکٹر گورنمنٹ کالج ٹیکنالوجی کوٹ ادو)
ہمارے ہاں سیاسی معاملات میں اختلاف نے تعصب و تنگ نظری اور جنگ و جدال کی صورت اختیار کرلی ہے اور ان معاملات میں نہ صرف جھوٹ بولنا ہماری عادت بن چکی ہے بلکہ ثبوت فراہم ہو جانے کے باوجود بڑی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے اس جھوٹ کو گوئیبلر کی طرح دہرائے جانا ہمارا ایمان بن چکا ہے تاکہ سچ کہیں چھپ جائے مگر انہیں معلوم ہونا چہیے کہ سچ بھی کبھی چھپ سکا ہے۔
چند سالوں
سے سوشل میڈیا یہاں تک کہ مین سٹریم الیکٹرونک میڈیا پر بھی پاکستان و قائد مخالفین
نے قائداعظمؒ سے متعلق پی ایچ ڈی کے جھوٹ کو ’’جنگ اور محبت میں سب جائز
ہے‘‘ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے اتنے شدومد سے دہرایا ہے کہ خدا کی پناہ۔ ان کا
کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت نے قائد اعظمؒ پر پی ایچ ڈی کرنے پر قانونی پابندی لگا
رکھی ہے اور کوئی بھی محقق پی ایچ ڈی کرنا چاہے تو اسے منع کردیا جاتا ہے۔ اگرچہ
سوشل میڈیا پر اس بات کا بارہا جواب دیا جا چکا اور پی ایچ ڈی کئی مقالات دکھائے بھی
جا چکے مگر پروپیگنڈہ ہے کہ جوں کا توں جاری و ساری ہے۔ ان پروپگنڈہ بازو سے کئی
بار پوچھا گیا کہ آپ نوٹیفیکیشن ہی دکھا دیں جواب ملا کہ یہ خفیہ پابندی ہے۔ پھر
پوچھا کہ کسی ایسے شخص کا بتا دیں جس نے پی ایچ ڈی کرنی چاہی ہو اور اسے منع کر
دیا گیا ہو۔ جواب آئیں بائیں شائیں۔
عرصہ تین سال قبل ایک صاحب دور کی کوڑی لائے اور
فرضی کہانی تک گھڑ کے سوشل میڈیا پرپھیلا دی۔ کہانی کے مطابق مشرف دور میں جب میاں
محمد سومرو سینٹ کے چیئرمین تھے تو ان سے جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر مولانا محمد
خان شیرانی صاحب نے کہا کہ قائد اعظمؒ پر پی ایچ ڈی کرنے پر لگائی جانے والی
پابندی کو ختم کیا جائے۔ تو بقول کہانی کار سومرو صاحب کا جواب تھا یہ پابندی تو
ایوب دور میں مقتدر قوتوں نے لگائی تھی اور آپ تو جانتے ہیں وہاں ہمارے پر جلتے
ہیں۔ ساتھ یہ دعوی بھی کیا کہ یہ سب سینٹ کی کاروائی تھی اور سینٹ کے ریکارڈ سے
چیک کی جاسکتی ہے۔
اس دعوے
کے جواب میں ہمارے ایک دوست محمد عبدہ صاحب نے ریکارڈ چیک کرایا تو پتہ چلا کہ
سینٹ کے ریکارڈ میں تو ایسا کچھ ہے ہی نہیں۔ مطلب کبھی ایسی پابندی لگی ہی نہی کبھی۔ لیکن جستجوکے دوران انہیں مختلف یونیورسٹیز
سے ہونے والی پی ایچ ڈیز کے کچھ مقالے ہاتھ لگےجن کی تفصیل مقالہ نگار کے نام،
مقالہ کے عنوان اورشائع شدہ مقالہ جات کے ٹائٹل کے ساتھ فیس بک کی دو اقساط پر
مشتمل تحریر میں بیان کردی۔ اس تفصیل کو ہم نے ہر اس شخص تک پہنچایا جس کا دعوی
تھا کہ قائد اعظم پر پی ایچ ڈی کرنے پر پابندی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ ناقابل تردید
شواہد کے بعد یہ پروپیگنڈہ ختم ہو جائے گا اور جھوٹ کا طوفان تھم جائے گا۔ مگر
افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور سوشل میڈیا و الیکٹرونک میڈیا پر آج بھی یہی جھوٹ
بڑے دھڑلے سے بولا جا رہا ہے۔
چند دن قبل سوشل میڈیا پر ایک دوست نے میری طبیعت جو ایک محترمہ کی پوسٹ کی طرف دلائی جس میں لکھا گیا تھا کہ علامہ اقبال پر پی ایچ ڈی توبہت ہو رہی ہیں مگر قائداعظمؒ پر پی ایچ ڈی کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ اس پوسٹ پر استہزاء اور طنز کی بھرمار تھی اورتقریباً تمام کمنٹ کرنے والوں کا کہنا تھا کہ آپ کم پی ایچ ڈی کی بات کر رہی ہیں۔ قائد اعظمؒ پر سرے سے پی ایچ ڈی ہوتی ہی نہیں اوراس پر باقاعدہ پابندی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کمنٹ کرنے والوں میں اکثریت ان اصحاب کی تھی جنہیں ڈیڑھ دو سال قبل ہم محمد عبدہ بھائی کی تحقیق سے آگاہ کرچکے تھے۔ ایک بار پھر میں نے ہر کمنٹ کے جواب میں محمد عبدہ صاحب کی پوسٹ کے لنک شئیر کئے اور انہیں چیلنج کیا کہ یا اپنی غلط بیانی واپس لیں یا اس ریکارڈ کا رد کریں مگر کسی میں ہمت نہ ہوئی۔ نہ رد لکھنے کی اور نہ ہی حقیقت ماننے کی۔
اس سب کے
دوران قابلِ افسوس صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب ایک نوجوان نے وقت ٹی وی چینل کا
ایک کلپ شیئر کیا۔ یہ کلپ 14 اگست 2018 کے وقت ٹی وی کے پروگرام ’’اپنا اپنا
گریباں‘‘ کا تھا جس کے اینکر مطیع اللہ جان تھے۔ مہمانانِ گفتگو میں ڈاکٹر محمد
حنیف خلیل صاحب شامل تھے جو اس وقت ’’قومی ادارہ برائے مطالعہ پاکستان‘‘ قائد اعظم
یونیورسٹی اسلام آباد میں ایسوسی ایٹ پروفیسر تھے اور آج کل اسی ادارے کے ڈائریکٹر
ہیں۔ اینکر کے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب فرما تے ہیں کہ پاکستان میں قائد
اعظمؒ پر پی ایچ ڈی کرنے پر آفیشل پابندی ہے۔ ان کے یہ الفاظ سن کر میں ہکا بکا رہ
گیا کہ ڈاکٹر صاحب کیا فرما رہے ہیں۔( ویڈیو اس مضمون کے ساتھ لگا دی گئی ہے)۔ کیا
ڈاکٹرموصوف کے علم یہ بھی نہیں کہ ڈاکٹر سکندر حیات اور ڈاکٹر فاروق نے اپنی پی
ایچ ڈی اسی یونیورسٹی سے کر رکھی ہے جو آکسفورڈ سے کتابی صورت میں بالترتیب
شائع ہو
چکی ہیں کے نام سے Jinnah’s Pakistan اور The Charismatic
Leader
اوریہانتکہ ڈاکٹر ریاض حسین کی
پی ایچ ڈی بھی قائد اعظم یونیورسٹی سے ہی ہے۔ تھوڑی سی تحقیق پر یہ بھی پتہ چلا کہ
شاید ڈاکٹر محمد حنیف خلیل صاحب کا تعلق خدائی خدمت گاروں اور خان غفار خان سے رہا
ہے۔
ویڈیو بھیجنے والے طالب علم کا مجھ سے سوال معقول تھا کہ اتنے اہم عہدے پر بیٹھا آدمی جھوٹ کیسے بول سکتا ہے۔ میں نے اسے جواب دیا کہ بیٹا ایک طرف تمہارے سامنے دس بارہ مقالات کی تفصیل ہے۔(تمام مقالات کے فرنٹ پیج کی تصاویر اس مضمون کے ساتھ اٹیچ ہیں) اور دوسری طرف ان صاحب کا بیان، آپ یقین ثبوتوں پر کریں گے یا کسی کے بیان پر جس نے پابندی کا صرف دعوی کیا ہے لیکن کسی قسم کا نوٹیفکیشن تک نہیں دکھایا۔ یہ تو ایسے ہے کہ دن کو دوپہر کے وقت آپ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہوں کہ کڑکتی دھوپ اور مکمل روشنی ہے اور دوسری طرف ایک اندھا آپ سے کہے کہ نہیں اس وقت گھپ اندھیرا ہے۔ تو پھر آپ اپنی آنکھوں دیکھے پر یقین کریں گے یا اس اندھے کے کہنے پر۔
بہرحال
انہی دنوں میری توجہ ایک دوست نے مولانا سید مودودی کانفرنس میں پشاور یونیورسٹی
کے شعبہ مطالعہ پاکستان کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام صاحب کے اس دعوے کی
طرف دلائی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سیکولر حضرات واویلا کرتے ہیں کہ قائد اعظمؒ
پر ناقدانہ پی ایچ ڈی کی اجازت نہیں ہے۔
میں ان کو پشاوریونیوسٹی آنے کی دعوت دیتا ہوں۔ اگرآپ میں اتنی قابلیت ہے تو
آئیں قائد اعظمؒ کے حوالے سے جس پہلو پر چاہیں ڈاکٹریٹ کریں، میں سپروائز کروں
گا، مکمل زمہ داری میں لیتا ہوں۔ اگرچہ اس بات کا کوئی ویڈیو ثبوت نہیں تھا مگر
میں نے اپنے ایک دوست کے ذریعے ڈاکٹر فخرالاسلام صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب
دیا کہ میں اس بات پر قائم ہوں اور آپ میرے حوالے سے یہ بات کسی بھی فورم پرکوٹ کر
سکتے ہیں اور میں اسے اوون کروں گا۔ پشاور کے احباب براہ راست ڈاکٹر صاحب سے رابطہ
کرکے پوچھ سکتے ہیں اور دوسرے احباب اگر چاہیں تو مجھ سے ان کا نمبر لے کر تصدیق
کرسکتے ہیں۔
یہاں
نمونے کے طور پر چند مقالہ جات کی تفصیل دی گئی ہے جو کہ اس بات کو رد کرنے اور جھوٹ
کا پول کھولنے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان میں قائد اعظمؒ پر پی ایچ ڈی کرنے کی
کبھی کوئی پابندی تھی اور نہ ہی آج کے دن تک ایسی کوئی پابندی ہے۔ ورنہ قائد اعظمؒ
اور علامہ اقبالؒ پر پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب کے پاس تیس سے
زائد مقالہ جات فوٹو کاپی شدہ مجلد حالت میں موجود ہیں، کوئی صاحب انہیں ملاحظہ
کرنا چاہیں تو اسلام آباد میں ان کی قائم کردہ ذاتی لائبریری میں تشریف لاکرتشفی کر
سکتے ہیں۔