یکساں قومی نصاب فائدہ یا نقصان | Riza Ur Rahman

وزیراعظم عمران خان کے تعلیمی نظام کے بارے میں حالیہ دنوں میں یکساں تعلیمی نصاب میں ہونیوالی پیش رفت احساس کی آئینہ دار ہے۔نئے نصاب کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے اساتذہ کا تدریسی عمل اور مشقی جائزے کے طریقوں کو اپنانا لازمی ہے۔یکساں قومی نصاب کا متعارف کروایا جانا ایک خواب سے کم نہیں ہے۔تاہم باقی تمام منصوبوں کی طرح تعلیمی نظام کا از سر نو جائزہ لیا جانا بھی ایک ایسا خواب معلوم ہوتا ہے جس کی عملی تعبیر پر یقین کرنا مشکل ہے۔اول جماعت سے پنجم تک ایک ہی نصاب بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔حکمران جماعت کا تعلیمی بنیادوں پر رنگ امتیاز ختم کرنے کا نعرہ قابل ستائش ہے۔لیکن یہ دستاویزات کی حد تک ہے۔جبکہ بنیادی طور پر یکساں نظام تعلیم رنگ و نسل اور معاشی حدود سے بالا تر ہو کر ہر بچے کو سیکھنے کی متوازی اور مربوط سہولتونکی فراہمی کا نام ہے۔یونیسف کے مطابق 28 ملین اندراج کے باوجود 22.8 ملین بچے ابھی تک سکولوں سے باہر ہیں جن کی حاضری یقینی بنانا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ایسا کوئی بھی عمل بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبی حکومت کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔
2020 کی تعلیمی رپورٹ کے مطابق پچھلے دس سالوں میں سرکاری سکولوں کے معیار میں گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔سرکاری سکولوں کی بڑی تعداد میں تعلیمی میعار مایوس کن حد تک گر چکا ہے۔سرکاری سکولوں میں اس مقصد کے لئے بہت سے عناصر پر کام کرنا ہوگا۔
سب سےاہم نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ (ایجوکیٹرز) کے ساتھ ساتھ حاظر سروس اساتذہ کی ٹریننگ ہے۔ریجنل سٹاف ڈویلپمنٹ اس حقیقت سے اتفاق کرے گا کہ ایک حاضر سروس استاد سال میں صرف تین دن کی ٹریننگ حاصل کر پاتا ہے جسے موجودہ صورت حال میں 10 گنا بڑھانے کی ضرورت ہے۔
بہت سے سکولوں میں پینے کے پانی کی فراہمی، ٹوائلٹ اور فرنیچر وغیرہ کی عدم دستیابی ایک سنگین مسئلہ ہے جو ترقی یافتہ ممالک سے فنڈز لینے کے باوجود جوں کانوں ہے۔ان فنڈز کی جانچ پڑتال کے لئے حکومت کو کام کرنا چاہیئے ۔ایک اور بات جو نہایت اہم ہے وہ یہ کہ سرکاری سطح پر نصابی کتابوں کے مواد کا معیار اور تہ بندی و ترتیب بھی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوئے۔سرکاری سکولوں میں رائج امتحانات کا نظام رٹہ لگائے ہوئے مواد کا امتحان ہے۔نظام تعلیم کی بہتری کے لئے مشقی اور عملی جائزے کا معقول اور بلا تعطل سلسلہ بھی اہمیت کا حامل ہے جس کے لئے حکومت کو تجربہ کار نگران اساتذہ کی ضرورت کا احساس ہونا بھی ضروری ہے۔آخر میں فنی اور تکنیکی پیشہ ورانہ تربیت کے میدان میں بھی معاشی دشواریاں حائل ہیں کیونکہ سکولوں کو فعال ورکشاپس اور مطلوبہ سامان کی تسلسل سے فراہمی کے لئے بھی بجٹ درکار ہو گا۔
معیار تعلیم کی بہتری کے لئے مندرجہ بالا تمام عوامل فنڈز کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس حقیقت کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ معار تنظیم کی بہتری اور یکساں نصاب تعلیم کے خواب کی عملی اور جامع تعبیر کے لئے بجٹ سب سے پہلا عنصر ہے۔اس کے علاوہ چونکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت نصاب تعلیم مرتب کرنے کی ذمہ داری وفاق سے صوبوں کو منتقل ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے وفاق کا دائرہ کار اس سلسلے میں محدود ہو جاتا ہے اور یہ صوبائی حکومتوں کے تحت چلنے والے اداروں پر براہ راست اثرانداز نہیں ہوسکتی۔بدقسمتی سے اٹھارویں ترمیم سے اب تک صوبوں نے اس سلسلے میں کوئی حوصلہ افزا کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔قومی نصاب 2006 کا موازنہ یکساں قومی نصا ب دستاویزات سے کریں تو بعدالذکر میں کافی بہتری نظر آتی ہے۔سب سے اہم نکتہ نصاب میں اسلامیات کو شامل کرنا ہے ۔قومی نصاب 2009 میں اسلامیات کو جنرل نالج کا حصہ بنانے کی تجویز دی گئی تھی جبکہ یکساں تعلیمی نصاب 2020 میں اسلامیات کو سلیبس میں باقاعدہ ایک علیحدہ مضمون کے طور پر پڑھانے کا عندیہ دیا گیا ہے سیرت طیبہ کا نصاب میں شامل کرنا عظیم کارنامہ ہوگا۔مزید برآں ، طالب علموں کو پرانے نصاب کی طرح سورتیں اور احادیث زبانی یاد کرنے کی بجائے ترجمہ کے ساتھ سکھانے پر زور دیا گیا ہے جو کہ طالب علم کو قرآن و سنت کے صحیح مفہوم سے آگاہ کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے ۔
قائداعظم اور علامہ اقبال کے ویثرن کو نمایاں کیا جانا بھی احسن اقدام ہوگا۔طلباء کے جائزے کے لئے ہر سبق سے پہلے تدریسی نتائج کے مقرر کئے گئے ہیں۔یکساں تعلیمی نصاب کو مرتب کرتے وقت تمام پالیسیوں اور قوم کی امنگوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔SLO, حصول کے لیے
اس میں بین الاقوامی سطح پر ابھرتے ہوئے رجحانات کے ساتھ ساتھ اپنی مذہبی ، ثقافتی ، قومی اور اخلاقی اقدار کو نئی نسل تک پہنچانے کی کوششیں بھی شامل ہیں ۔ساتھ ہی یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ طلباء اپنی ثقافت اور مذہبی رسومات کے علاوہ دوسروں کے مذہب اور ثقافت کا احترام کرنا بھی سیکھیں۔حاصل کردہ علم کو عملی زندگی اور روزمرہ زندگی میں شامل کرنا ایک دیرینہ مطالبہ رہا ہےجو کہ پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔رَٹا سسٹم کی نفی کرکے بچوں کو عملی طور پر سیکھنے اور اس کو اپنی سوچ کے مطابق عملی شکل دینا شاندار قوم کی بنیاد بنے گا۔اکیسوی صدی کی مہارتوں کی طرف توجہ جیسا کہ تنقدی نگاہ سے سوچنا، تخلقاتی سوچ، تجزیاتی نظریہ ، مسائل کو حل کرنے کے طریقے ڈھونڈنا، مواصلاتی مہارت جیسے بے شمار نئے اجزا شامل کیے گئے ہیں جوکہ بجاطور پر وقت کی اہم ضرورت تھے۔ساتھ ساتھ مثبت رویہ اور سوچ کی پیدا کرنے کے لیے اقدار اور خیال جیسا کہ امن قائم رکھنا عزت کرنا اور کروانا ، برداشت کرنا ، رحم کرنا، مذہب کا احترام اور معاشرتی معاملات کا ادب وغیرہ شامل کیے گئے ہیں۔ماحولیاتی اور موسمیاتی آب وہوا کا ذمہ داری سے خیال رکھنا، صحت ، حفظان صحت اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا، وغیرہ شامل ہیں ۔ مختصراَیکساں نصاب 2006 کے قومی نصاب کے مقابلے میں زیادہ لچکدار اور قابل عمل ہے ۔اول الذکر میں تبدیلی کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔یکساں تعلیمی نصاب پر اگر صحیح معنوں ہیں عملدر آمد ہو گیا تو ملک تعلیم کے شعبے میں درست سمت کی طرف گامزن ہو سکے گا۔لیکن اس سب سے بھرپور استفادہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہےجب اداروں کے سربراہان اور ماہرین تعلیم کی زیر سرپرستی اشاعت کنندگان اپنا کام ذمہ داری سے کریں اور نصاب کے مطابق مواد پر مبنی کتب شائع کریں۔ٹیچرز کی ٹریننگ اور کارکردگی اس نصاب کی کامیابی یا ناکامی ثابت ہوگی۔