منچن آباد کا المیہ( سڑکوں کی صورت حال ) ۔۔۔۔ قسط سوم | Haji Fazal Mehmood Anjum

 یوں تو یہ بات بڑی خوش کن ہے کہ منچن آباد تحصیل پنجاب کی دوسری اور ضلع بہاول نگر کی پہلی بڑی تحصیل ہے۔لیکن جتنی یہ تحصیل بڑی ہے اتنے ہی اس کے مسائل بھی بڑے ہیں۔سات لاکھ آبادی کی یہ تحصیل تین طرف سے پورے پنجاب سے اور ایک طرف سے اس کی سرحدیں انڈیا سے ملی ہوئی ہیں۔پاکپتن اوکاڑہ اور بہاول پور اضلاع سے اس تحصیل کا رابطہ سڑک کے ذریعے ہی قائم ہے کیونکہ ریلوے کا رابطہ تقریبا"پندرہ سال سے منقطع ہے۔اور فضائی راستے کا یہ تحصیل متحمل نہیں ہو سکتی۔یوں ٹوٹی   پھوٹی سڑکیں ہی باقی رہ جاتی ہیں جن کے ذریعے اس علاقے کے لوگ دوسرے شہروں اور قصبوں میں آتے جاتے ہیں۔منچن آباد سے پاکپتن مجموعی طور پر تقریبا" تیس کلو میٹر فاصلے پر ہے اور اس کا فاصلہ منچن آباد کے اپنے ضلعی صدر  مقام بہاولنگر سے بھی کم ہے۔لیکن منچن آباد سے پاکپتن جانا اور وہاں سے واپس آنا جوۓ شیر لانے سے زیادہ مشکل کام ہے۔کیونکہ منچن آباد سے پاکپتن جانے والی روڈ کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ جیسے محکمہ آثار قدیمہ کسی جگہ کی کھدائی کرے اور وہاں کی ہر چیز کو الٹ پلٹ کے رکھ دے۔بالکل یہی صورت حال اس روڈ کی ہے۔پاکپتن کا راؤ خاندان۔کھگے پیراور سخی چن پیر کے بڑے بڑے جبہ و دستار زیب تن کرنے والی شخصیات اور منچن آباد کا معروف شاہ خاندان۔میاں خادم حسین کالوکا کا ہر دور میں برسر اقتدار رہنے والا خاندان۔گدھوکا خاندان جو بڑے فخر سے اپنے نام کے ساتھ نواب لکھتے ہیں۔ساڑھو خاندان جس کی یہ خصوصیت ہے کہ اس خاندان کا ہر فرد پڑھا لکھا ہے۔لالیکا خاندان جو اب بھی وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔اتنے بڑے بڑے اور نامور خاندان جو ہر دور میں اقتدار میں رہے اور اقتدار کے سنگھاسن میں جھولے جھولتے رہے لیکن یہ روڈ نہ بنوا سکے۔  دسیوں سال پر محیط یہ مسلہ کسی بھی سیاسی بزرجمہر سے حل نہ ہو سکا۔نہ جانے کیوں؟ اب اس کا جواب تو ان ہی لوگوں کے پاس ہے جن کا میں نے پہلے ذکر کیا۔
     ایک اور روڈ جو ایک طرف منچن آباد کو ضلعی صدر مقام بہاول نگر سے اور دوسری طرف منچن آباد کو ہیڈ سلیمانکی سے ملاتا ہے۔اللہ بھلا کرے سابق وزیراعلیٰ میاں منظور احمد وٹو کا کہ جس نے اس روڈ کو ڈبل کروایا۔اس وقت سے لیکر آج تک میں نے شائد ہی اسے مرمت ہوتے دیکھا ہو۔ایک آدھ دفعہ اس پہ بجری کی تہ بچھائی گئی اس کے بعد تو گویا چراغوں میں روشنی نہ رہی۔نتیجہ یہ کہ آج یہ روڈ جگہ جگہ سے کھڈوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔بعض جگہ تو گڑھے اتنے گہرے ہیں کہ سڑک نام کا نشان ہی نہیں۔روزانہ حادثات۔روزانہ جانوں کا ضیاع۔روزانہ گھروں کے چراغ گل۔روزانہ جنازے۔لوگوں نے اس کا نام ہی" قاتل روڈ " رکھ دیا۔بڑا شور مچایا میڈیا نے۔بڑی آہ و بکا کی مرنے والوں کے لواحقین نے۔لیکن سننے والے کان بہرے۔ دیکھنے والی آنکھیں بے نور اور بولنے والی زبانیں گنگ ہو جائیں تو شکائیت کس سے کریں۔

           آ بلبل مل کے کریں۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔آہ و زاریاں 
           تو ہاۓ گل پکار میں پکاروں ہاۓ دل
ادھر ایک سڑک منچن آباد سے ہوتی ہوئی بہاول نگر براستہ چوک فدائی شاہ جاتی ہے ۔ درمیان بیسیوں گاؤں ایسے آتے ہیں جن کا انحصار اسی روڈ پر ہے۔یہ تمام علاقہ بڑا ذرخیر اورکاشتکاری کے لحاظ سے بڑا اہم ہے۔لوگ اپنی اجناس کی پیداوار کو منڈیوں تک لے جانے کیےء اسی روڈ کو اختیار کرتے ہیں۔لیکن اس روڈ کی صورت بھی بڑی دگر گوں ہے۔اس پہ سفر کرنا اور منڈیوں تک اپنی پیداوار کو لیکر جانا ایک بہت ہی مشکل امر ہے۔کیونکہ یہ روڈ بری طرح سے تباہ و برباد ہو چکی ہے۔اور سفر کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ایسے میں لوگ اپنی ذرعی پیداوار اونے پونے داموں ہی بیچ دیتے ہیں کیونکہ انہیں منڈی تک پہنچنے میں بڑا کھجل خوار ہونا پڑتا ہے اور نقصان ہوتا ہے۔یہ تو ان چند روڈز کی صورت حال ہے جو کہ منچن آباد کو دوسرے شہروں سے ملاتی ہیں ورنہ منچن آباد تحصیل کی کوئی بھی سڑک ایسی نہیں جسے سفر کرنے کے قابل سمجھا جا سکے۔یہی منچن آباد کی سب سے بڑی بدقدمتی ہے کہ اس تحصیل کا کوئی ایسا روڈ نہیں کہ جسے تسلی بخش کہا جا سکے ۔روڈز کا تمام  قسم کا انفراسٹرکچر تباہی و بربادی کے دھانے پہ پہچ چکا ہے۔گویا 

           کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں 
          ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا بتاؤں    

والا معاملہ ہے۔قصہ درد سننے والا کوئی بھی نہیں۔عجیب قسم کی آپا دھاپی ہے۔اہل اقتدار۔عوامی نمائندے۔اعلیٰ حکام ۔ ذمہ دار ادارے اور انسانی حقوق کی انجمنیں اور سماجی کارکن کوئی  بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ مظلوم عوام کی فریاد سن سکے۔ہر ایک اپنے اپنے مفادات کا اثیر ہے چاہے وہ عوامی نمائندہ ہو۔حاکم بالا ہو یا پھر اہل ثروت ہو۔سب کی آنکھیں بند ۔سب کے ہونٹ سلے ہوۓ۔سب کی زبانیں گنگ اور ہونٹوں پہ مصلحت کی پٹی اسلیےء کہ بول پڑا تو فلاں صاحب ناراض۔نہ بولا تو فلاں ناراض۔ہر طرف مصلحت اور ہر طرف مٹی پاؤ پالیسی لیکن نقصان  پوری تحصیل کا۔  جائیں تو کہاں جائیں؟ 
        یہاں کے صحافی جو کہ معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں۔اور بروقت حکام بالا کو اپنی خبروں کے ذریعے باخبر رکھتے ہیں۔انہیں معاشرے کے اندر ہونے والی تبدیلیوں اور مد و جذر سے آگاہ رکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔جو عوامی خیالات و احساسات کے آئینہ دار ہوتے ہیں بارہا اس بارے میں توجہ مبذول کروا چکے ہیں۔میں نے خود اپنے متعدد  بار اس تحصیل کی زبوں حالی اور بدحالی کے بارے میں اپنے کالموں اور رپورٹنگ کے ذریعے اہل اختیار لوگوں کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی ہے۔ اس التجا کے ساتھ کہ حضور ! منچن آباد کے باسی بھی انسان ہیں۔یہ بھی پاکستان کے شہری ہیں۔یہ بھی حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں۔یہ کوئی آپ کی حکمرانی کی حدود سے باہر  نہیں ہیں۔اگر یہ سب آپ تسلیم کرتے ہیں تو خدارا ! ان کی خبر لینا اور ان کے مسائل حل کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔کیونکہ آپ سے بھی ایک دن ضرور پوچھا جاۓ گا بالکل ان حکمرانوں کی طرح جو یہ کہتے تھے کہ "دریاۓ دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو قیامت والے دن مجھ سے پوچھا جاۓ گا۔چنانچہ آپ سے بھی پوچھا جاۓ گا اور یقینا"پوچھا جاۓ گا۔ وہ وقت قریب ہے۔