بزدار حکومت میں بندر بانٹ | Aaghar Nadeem Sahar

گزشتہ ہفتے کی سب سے اہم ادبی خبر مجلس ترقی ادب میں نئی تقرری ہے۔نامور محقق‘استاد اور دانش ور جناب ڈاکٹر تحسین فراقی کو عرصہ ملازمت مکمل ہونے سے (چودہ ماہ)قبل ہی عہدے سے ہٹا دیا گیا اور اس بارے میں تاحال کوئی حکومتی مؤقف سامنے نہیں آیا کہ یہ بھونڈی حرکت کیوں کی گئی اور اس سارے معاملے میں کون لوگ مموث ہیں۔ہاں نئے تعینات ہونے والے شاعر منصور آفاق کی حمایت کرنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ فراقی صاحب چونکہ بزرگ ہو چکے تھے اور منصور آفاق ابھی نوجوان ہیں‘حکومت سے ذاتی تعلقات بھی ہیں لہٰذا حکومت سے مجلس کے نام پرفنڈ نکلوانے کا کام منصو رآفاق زیادہ بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔کسی نے کہا کہ فراقی صاحب چونکہ ایک طویل عرصے سے اس عہدے پر رہے لہٰذا انھیں اب گھر چلے جانا چاہیے۔کسی نے کہا کہ یہ عہدہ کالم لکھنے کی وجہ سے ملا تو کسی نے کہا کہ حکومتی لوگوں سے تعلقات اور ان کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانوں کی وجہ سے یہ عہدہ پیش کیا گیا۔خیر جیسے بھی ہوا‘ہو گیا۔اس کالم کا مقصد بھی یہ قطعاً نہیں کہ منصور آفاق کو یہ عہدہ کیوں ملا‘یا یہ عہدہ کسی اور لکھنے والوں کو ملنا چاہیے تھا۔کیونکہ مجھے ذاتی طور پر منصور آفاق کی تقرری سے نہ تو کوئی مسئلہ ہے اور نہ میں نے کبھی کسی ایسے عہدے کی خواہش رکھی۔ میرا دکھ تو صرف یہ ہے کہ ڈاکٹر تحسین فراقی کو اگر عہدے سے ہٹانا ہی مقصود تھا تو کم از کم انہیں پیشگی اطلاع دی جاتی یا اس حوالے سے ایک ادبی بورڈ بنا کر سینئرز لکھنے والوں سے مشورہ کر لیا جاتا تاکہ کوئی بہتر راستہ سامنے آجاتا۔مگر حکومت کی سینکڑوں نااہلیاں اپنی جگہ‘یہ بلنڈر انتہائی افسوس ناک ہے۔
ایک جانب حکومت رویہ اور دوسری جانب لکھنے والوں کا رویہ۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک طبقہ تحسین فراقی صاحب کی ادبی خدمات کی فہرست گنوا رہا ہے تو دوسرا طبقہ منصو رآفاق کے ایوارڈز اور علمی قد کاٹھ کا واویلا کر رہا ہے۔حالانکہ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہاں موازنہ تو بنتا ہی نہیں۔ایک صاحب نے تو سوشل میڈیا پر یہاں تک کہہ دیا کہ”مجلس ترقی ادب کا دفتر‘اب واقعی دفتر لگ رہا ہے“۔یعنی ان کی بات کا مطلب ہے امتیاز علی تاج،حمید احمد خان،احمد ندیم قاسمی،شہزاد احمد سمیت مجلس ترقی ادب کے تمام ناظمین جھک ہی مارتے رہے ہیں۔ان کے کریڈٹ میں کچھ ہے ہی نہیں۔حیرانی اس بات کی ہے کہ جب تحسین فراقی صاحب کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تھی وہاں محبانِ منصور نے ایک الگ محاذ کھڑا کر لیا‘انہیں لگ رہا ہے کہ فراقی صاحب کے حق میں پوسٹ لگانے والا ہرشخص منصور آفاق کا دشمن ہے یا منصور آفاق کی تقرری کے خلاف ہے۔اب ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ بھائی ہمارا مسئلہ کبھی بھی یہ نہیں رہا کہ فلاں ادارے کا ناظم یا چیئرمین‘فلاں کو ہونا چاہیے کیونکہ سنجیدہ لکھنے والے ہمیشہ ایسے معاملات سے دور رہے ہیں،وہ اور لوگ ہیں جنہوں نے گلدستے اور کتب کے تحائف لے کر ہر نئے چیئرمین کے پاس پہنچنا ہوتا ہے تاکہ کسی مشاعرے یاکانفرنس کا دعوت نامہ مل سکے۔میرا یا میرے جیسے کتنے لکھنے والوں کا احتجاج اس بدتمیزی کے خلاف ہے جو ڈاکٹر تحسین فراقی جیسے جید عالم کے ساتھ کی گئی اور اس معاملے پر اگر آج اہلِ قلم طبقہ صدائے احتجاج بلند نہیں کرے گا تو یہ معاملہ ایسے ہی چل نکلے گا اور منصور آفاق سمیت کتنے ہی ناظم اس زیادتی کی نذر ہو جائیں گے۔
اب اس ساری صورت حال میں ایک تیسرا طبقہ بھی سامنے آیا جن کی خوفزدہ خاموشی سے کئی سوالوں کا جنم ہوا۔ایسے خوف زدہ ادیب نہ تو کھل کر احتجاج کر رہے ہیں اور نہ ہی حمایت۔بالکل خاموش ہیں،ظاہری سی بات ہے اس خاموشی کی زبان کوئی اتنی مشکل نہیں جو سمجھ میں نہ آ سکے‘مفادات کے مارے یہ لوگ‘جب کوئی کام نہیں کر سکتے تو چاپلوسی کرنے لگتے ہیں اور یہی ان کی عمر بھر کی جمع پونجی ہے۔اور کچھ نہیں تو دو چار شاگرد تو ہاتھ میں ہوتے ہیں‘انہیں غزلیں لکھ کر دیں اور ان سے تعریفی مضامین لکھوا لیے۔جب پچاس کتاب لکھ کر بھی کچھ نہ مل سکے تو پھرظاہر ہے چاپلوسی ہی بنتی ہے۔ایک ذمہ دار دوست سے معلوم ہوا کہ منصور آفاق جب فراقی صاحب  کے دفتر پہنچا‘تو ان سے جاتے ہی بولا کہ”جناب اٹھیے اب یہ سیٹ میری ہے“فراقی صاحب نے چارج اسے دیتے ہوئے کہا کہ میرا کچھ سامان یہاں پڑا ہے‘اسے کچھ دن تک اٹھوا لوں گا تو اس پرنئی ناظم گویا ہوئے کہ ”دو چار دن تو بہت دور ہیں‘آپ ابھی سامان لے کر جائیے“۔اگر تو یہ بات واقعی سچ ہے تو اس پر جتنا افسوس کیا جائے،کم ہے۔
ایک طرف ڈی جی پی آر دن رات اس کوشش میں سرگرداں ہے کہ کسی بھی طرح قوم کے سامنے بزدار حکومت کا مثبت امیج پیش کیا جا ئے تو دوسری طرف ایسی اوچھی حرکتیں سمجھ سے باہر ہیں۔ابھی کچھ روز پہلے کی بات ہے کہ وزیر صحت یاسمین راشد کی بیٹی ڈاکٹر عائشہ علی کی تقرری راتوں رات انیسویں گریڈ میں (کنگ ایڈورڈ)میں کر دی گئی اور اس معاملے میں خود وزیر صحت مؤوف دینے سے گریزاں ہیں۔حالانکہ کنگ ایڈروڈ میں ہی کتنے پروفیسرز آج تک مستقل نہیں کیے جا سکے لیکن چونکہ پنجاب حکومت‘بزدار صاحب کی ہے اور ان کے قریب بیٹھے وزراء جو خود خدا سمجھ رہے ہیں‘ان سے کسی بھی طرح کی توقع کی جا سکتی ہے۔ آپ حکومت کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ جب بھی کہیں میرٹ کا مذاق اڑایا گیا اور جب بھی اپنوں کو نوازا گیا‘حکومت میں مؤقف دینے کی بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔پنجاب حکومت سے کیا گلہ‘یہاں فیڈرل میں بھی یہی گل کھلائے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ ایسا ہی چلتا رہے گا۔مسلم لیگ نون کے دور میں جیسے صحافیوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری رہا‘تحریک انصاف کی حکومت میں بھی شرو ع ہوچکا۔جلد ہی باقی کالم نگاروں کو بھی عہدے دیے جائیں گے‘تھوڑا انتظار کر لیں۔