احسان کا بدلہ | Rai Zaheer Hussain

ایک اچھاانسان اپنے محسنین کے احسان کے بدلے کو چکانے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں بھی ہمیں احسان کا بدلہ چکانے کی تلقین کی ہے۔ سورہ رحمن کی آیت نمبر60 میں ارشاد ہوا: ''نہیں ہے احسان کا بدلہ مگر احسان ہی‘‘۔ والدین چونکہ انسان کے بہت بڑے محسن ہوتے ہیں اور اس کی کفالت اور تربیت میں نمایاں ترین کردار ادا کرتے ہیں‘ اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے متعدد مقامات پر والدین کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیات 23 تا 24 میں ارشاد ہوا: ''اور فیصلہ کر دیا آپ کے رب نے کہ نہ تم عبادت کرو مگر صرف اسی کی اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا (حکم دیا) اگر واقعی وہ پہنچ جائیں تیرے پاس بڑھاپے کو دونوں (یا)ان دونوں میں سے ایک‘ تو مت کہہ ان دونوں سے اُف بھی اور مت ڈانٹ ان دونوں کو اور کہہ ان دونوں سے نرم بات۔ اور جھکا دے ان دونوں کے لیے عاجزی کا بازو رحمدلی سے اور کہہ (اے میرے ) رب! رحم فرما ان دونوں پر جس طرح ان دونوں نے پالا مجھے بچپن میں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں والدین کے ساتھ ساتھ دیگر رشتہ داروں، مساکین، یتامیٰ کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 83 میں ارشاد فرمایا : ''اور جب ہم نے لیا بنی اسرائیل سے پختہ عہد (کہ) نہیں تم عبادت کرو گے مگر اللہ کی اور ولدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو گے اور قریبی رشتہ داروں اور یتیموں اور مساکین سے (بھی) اور لوگوں سے اچھی بات کہنا‘‘۔ اسی طرح سورہ نساء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد ہوا: ''اور تم عبادت کرو اللہ تعالیٰ کی اور نہ تم شریک بناؤ اُس کے ساتھ کسی کو‘ اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو اور قرابت والوں اور یتیموں کے ساتھ اور مسکینوں اور قرابت والے (رشتے دار) ہمسائے اور اجنبی ہمسائے اور پہلو کے ساتھی اور مسافر اور جس کے مالک بنے ہیں تمہارے داہنے ہاتھ (یعنی تمہارے غلام، ان سب کے ساتھ حسنِ سلوک کرو) بے شک اللہ تعالیٰ نہیں پسند کرتا جو ہو مغرور (اور) فخر کرنے والا‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں ہر قرابت دار ‘تعلق دار کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی زندگی پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ روئے زمین پر جس شخصیت کے احسانات بنی نوع انسان پر سب سے زیادہ ہیں وہ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔دوسرے یہ کہ کسی سے معمولی فائدہ ملے تو جواب میں اسے بھی حسبِ توفیق فائدہ پہنچانا چاہیے۔تیسرے یہ کہ جس نے کبھی آپ کے ساتھ احسان کیا ہو یا آپ کی مشکل میں آپ کے کام آیا ہو، اسی کو نہیں ،بلکہ اس کے متعلقین کو بھی عزت واحترام دینا ضروری ہے۔ چوتھے یہ کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ہر شخص کے لئے اس کا وقت بھی اس ذاتِ بابرکات نے متعین کررکھا ہے۔ پانچویں یہ کہ کچھ خوش قسمت انسان ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کے لئے بھی ہدایت کے دروازے کھولنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ انہی کو حدیث پاک میں مفتاحٌ للخیریعنی خیر کی چابی قرار دیا ہے۔ایک اور واقعہ بھی بڑا ایمان افروز ہے۔ حضور پاکؐ جب طائف سے زخمی حالت میں واپس پلٹے تو آپ مکہ سے باہر رک گئے کہ قریش جو پہلے ہی دشمن تھے، اب کیا کہیں گے۔ جب مکہ میں اطلاع پہنچی تو سرداران مکہ میں سے ایک مشرک سردار مطعم بن عدی نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ وہ ہتھیار بند ہوجائیں اور جا کر محمد(ﷺ) کو اپنی امان میں لے کر اس کے گھر پہنچائیں۔ جب وہ آپؐ کے پاس آئے تو آپؐ نے ان کے باپ کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ میرے لئے اللہ ہی کی امان کافی ہے۔ نبی پاکؐ نے اس سردار کی یہ نیکی زندگی بھر یاد رکھی۔ جنگِ بدر کے قیدیوں کے بارے میں آپؐ نے فرمایا: ’’اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے ان قیدیوں کی رہائی کی بات کرتا تو میں ان سب کو رہا کر دیتا۔ اسی طرح آپؐ نے فتح مکہ کے بعد ایک موقع پر جبیر بن مطعمؓ کو اونٹوں سے بھری ہوئی ایک پوری وادی بخش دی تھی۔ (اسد الغابۃ اردو ترجمہ، مطبوعہ مکتبہ خلیل، ص 355۔256)۔عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنِ اسْتَعَاذَ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ سَأَلَ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ، وَمَنْ دَعَاكُمْ فَأَجِيبُوهُ، وَمَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُونَهُ، فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَرَوْا أَنَّكُمْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ»
سنن ابو داود:1672، سنن النسائي:2568
ترجمہ : حضرت  عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما سے روایت  ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص  اللہ کے واسطے  سے پناہ  مانگے  اسے پناہ دو ،  جو تم  سے اللہ تعالی  کے نام کے واسطے  سے سوال  کرلے  اسے  دو،  اور  جو تمہیں  دعوت  دے اسکی دعوت قبول  کرلو  اور جو  تمہارے  ساتھ کوئی  احسان  کرے تو اس کا  بدلہ  دو  ، اگر  اس کا بدلہ  دینے  کے لئے  تمہارے  پاس  کوئی  چیز نہ  ہو تو  اس کے لئے  دعا کرو  اور یہاں تک   دعا کرتے رہو کہ تم  سمجھ لو کہ  اس کے   احسان کا بدلہ  چکا دیا ہے ۔ {سنن  ابو داود ، سنن  النسائی  ، صحیح  ابن حبان }۔
نبی ﷺ کی اس مبارک  حدیث  میں ہمیں  چند  آداب  سکھلائے  گئے ہیں جن کا تعلق  عقائد  سے بھی  ہے ، عبادات سے بھی  ہے  اور اخلاقیات  سے بھی ، چنانچہ  اس حدیث  میں لوگوں  کے ساتھ  تعامل  کے چار ادب بیان ہوئے ہیں ۔ان میں سے ایک ہے کہ بدلہ دو  یعنی  اگر کوئی تمہارے  ساتھ احسان  کرے خواہ مالی  طور پر ہو جیسے  ہدیہ  و تحفہ  وغیرہ  یا جسمانی  طور پر  ہو جیسے  کوئی  خدمت کردی  تو اس کا بدلہ  دو ،کوشش  یہ رہے کہ کسی کا  کوئی حق اپنے  اوپر نہ رہنے  پائے، مسلمان کا  یہ بھی ایک حق ہے  جس کا ادا کرنا  واجب ہے ، الا یہ کہ اگر وہ  احسان  کسی ایسے شخص  کا ہو کہ اس کا بدلہ  دینا مشکل ہے ،یا یہ کہ وہ  بدلہ  لینے سے خوش نہیں ہوتا  تو اس کے لئے  بکثرت  دعا کی جائے  تا کہ  اس کا حق ادا ہوجائے  ، اس  کا یک فائدہ  تو  یہ ہوگا کہ اس طرح  لوگوں کو ایک دوسرے  کے ساتھ  احسان کرنے  پر رغبت  ہوگی ، دوسرے  یہ کہ  کسی کا احسان  مند  ہوجانے  سے انسان  کو جو  کمتری  کا احساس  رہتا ہے  وہ جاتا  رہے گا  ، واللہ اعلم ۔    اچھے  بدلے کی دعا  کا سب بہتر طریقہ اس حدیث میں بیان ہوا ہے: جس کے ساتھ  کوئی نیک  برتاو کیا گیا  اور اس نے کہا : "جزاک اللہ  خیرا ” تو اس  نے محسن  کی خوب تعریف کی ۔ {سنن ترمذی  بروایت  اسامہ بن زید }۔