معاشرہ افراد کے باہم ملاپ کا نام ہے. لوگ آپس میں ملتے ہیں تو معاشرہ بنتا ہے۔ ثقافت پروان چڑھتی ہے اور اقدار فروغ پاتی ہیں۔ جوں جوں معاشرےکی بنیاد وسیع ہوتی جاتی ہے اسی رفتار سے اس معاشرے میں اقدار بھی فروغ پاتی جاتی ہیں ۔ یہ اقدار اچھی اور بری دونوں طرح کی ہوتی ہیں ،اگر اقدار اچھی ہوں تو یہ ایک مثالی معاشرہ کہلاتا ہے اور اگر بدقسمتی سے اس معاشرے میں بری اقدار کی بہتات ہو تو پھر یہ معاشرہ درندوں کا بھٹ بن جاتا ہے اور پھر یہ انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہتا۔
ہماری ملکی آبادی کے بڑھنے کی وجہ معاشرتی برائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جس نے پاکستانی معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ آج پاکستان میں بھی مختلف قسم کی برائیاں فروغ پا چکی ہیں اور ہمارے معاشرے کی پراگندگی کا باعث بنی ہیں۔آج مذہبی منافرت علاقائی و صوبائی تعصب نسلی تفاخر اور مادہ پرستی نے پاکستانی معاشرے کو بلکل کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ آج ہر شخص انا پرستی ذاتی مفاد اور گروہی اختلافات کا اسیر نظر آتا ہے۔کہیں مذہب اور فرقے کا سہارا لیا جاتا ہے۔کہیں پہ ذاتیات کو مرکز نگاہ بنا لیا جاتا ہے اور کہیں پہ علاقائی تعصب فروغ پانے لگتا ہے۔غرور و تکبر اور نسلی تفاخر اب اتنا عام ہو چکا ہے کہ آج ہر آدمی کی سوچ اس کے اپنے ہی گرد منڈلاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ایثار و قربانی اور ایمانداری و رواداری کا جذبہ مفقود ہو چکا ہے۔
آج ہر شخص نفسا نفسی کے عالم میں ہے اور یہ چاہتا ہے کہ جو بھی مفاد جہاں کہیں سے بھی ملے اسے وہ اپنی جھولی میں ڈال لے اور جتنا بھی ہو سکے اپنی تجوری بھر لے۔ دوسری طرف آج ہر شخص ایک دوسرے کی ٹوہ میں ہے۔ جہاں کہیں کسی کی کوئی برائی دیکھی تو اسے نیزے کی انی پہ رکھ لیا اور پھر اس کی بے بسی سے خوب خوب مزے لئے لیکن یہی گندی عادت اگر خود میں موجود ہے تو اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کوئی اسے طشت از بام نہ کرے کیونکہ اس سے اس کی شہرت اور عزت مجروح ہوتی ہے۔ان چیزوں نے پاکستانی معاشرے کے روشن چہرے کو گہنا کے رکھ دیا ہے۔
آج ہمارے ہاں امن و امان کی صورت حال بڑی مخدوش اور بدحالی آسمان پہ پہنچی ہوئی ہے۔آج یہاں انسانی خون بہت ارزاں ہے ۔ اتنا ارزاں کہ بھرے بازار میں لوگ قتل ہو جاتے ہیں اور قاتل سب کے سامنے دندناتے ہوۓ منظر سے غائب ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کی عزتیں سرعام تارتار کی جاتی ہیں۔ آج کسی کا مال و جائیداد محفوظ نہیں۔آج کسی کو بھی مذہبی اور فکری حوالے سے تحفظ حاصل نہیں۔ بے روزگاری اتنی ہے کہ اس کی وجہ سے ملک میں امن امان کی صورت حال خراب ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں گلیوں اور محلوں کے علاوہ عام شاہراہوں پر لوٹ مار کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا ہے، سیکیورٹی ادارے اس کی روک تھام میں ناکام ہوتے جا رہے ہیں اسلئے کہ انکے ہاتھ بندھے ہوۓ ہیں جس سے صورت حال کے مزید خطرناک ہونے کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔
معاشرے میں موجود انہی اخلاقی بیماریوں کی وجہ سے آج ہم قعر مذلت میں گر چکے ہیں۔ہماری عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے اور مقدمات بھی وہ جو زیادہ تر اخلاقی نوعیت کے ہیں۔جیلیں قیدیوں سے بھری ہیں۔ جگہ جگہ گلی گلی اور کوچے کوچے میں لڑائی جھگڑے گالم گلوچ اور طوفان بدتمیزی کی بھرمار ہے۔ ہر جگہ سر پھٹول اور بربریت کے مظاہرے عام ہیں۔ یہ سب کچھ انہی اخلاقی برائیوں کا نتیجہ ہے۔ہمیں یہ سوچنا ہے کہ یہ کب تک چلے گا اور کب ہمارا معاشرہ بدلے گا۔؟ ہمارا معاشرہ یقینا“اس دن بدل جائے گا :-
”جب صاحبان اقتدار کو ایک عام آدمی سڑک پہ روک کر پوچھے گا کہ جب ہماری پوری آمدنی سے زیادہ ایک بجلی کا بل آرہا تھا تو آپ کہاں تھے۔؟“
”جب مہنگائی کی وجہ سے ہمارے کاروبار بند ہو رہے تھے اور ساری عوام پریشان ہو رہی تھی تو آپ اس وقت کہاں تھے۔؟“
”جب سارا ملک سیلاب میں ڈوب رہا تھا اور بچے اور بڑے بھوکے مر رہے تھے تم اس وقت کہاں تھے۔؟“
ہاں ہاں ۔! تم اس وقت اپنے پورے خاندان اور لاٶ لشکر کیساتھ بیرون ملک سیر سپاٹے کر رہے تھے اور سرکاری خرچے پر حج اور عمرے پر نکلے ہوۓ تھے۔
ہمارا معاشرہ اس دن بدل جائے گا
”جب آپ سے پوچھا جاۓ گا کہ بیرون ملک جانے والے وفد میں آپکے اپنے بیٹوں کے علاوہ اور کوئی شخص اہلیت پر پورا نہیں اترتا تھا۔“
”جب یہ پوچھا جائیگا کہ لوگ مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی بچوں سمیت خودکشیاں کر رہے تھے اور تم اپنے پورے خاندان کیساتھ لندن پیرس اور دبئی میں بیٹھ کر عیاشیاں کر رہے تھے۔“
ہمارا معاشرہ اس روز بدل جائے گا
”جب ہر رشوت خور افسر اور بیوروکریٹ سے پوچھا جائیگا کہ گا تم اور تمہاری اولاد رشوت لیکر حرام کیوں کھا رہے ہو۔؟
”جب یہ پوچھا جائیگا کہ تمہاری آمدن اور اثاثے تمہاری ماہانہ تنخواہ سے زیادہ ہیں یہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے۔؟“
یقینا“ ہمارا معاشرہ اس دن بدل جائے گا
جس دن حکمرانوں اور افسروں کے دل میں یہ خوف بیٹھ جائیگا کہ ہمارا بھی احتساب ہو سکتا ہے۔یاد رکھیئے گا کہ پوچھنا تو عوام کا حق ہے کیونکہ وہ ریاست کو ٹیکس دیتے ہیں جس سے آپ عیاشیاں کرتے ہو اور یہ بھی کہ پوچھنے والوں نے تو خلیفہ وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی پوچھ لیا تھا کہ:-
”آپکی قمیض کا فالتو کپڑا کہاں سے آیا ہے۔؟“