کوئی تو آئے خزاں میں پتے اُگانے والا
گلُوں کی خوشبو کو قید کرنا کوئی تو سیکھے
کوئی تو آئے نئی رُتوں کا پیام لے کر
اندھیری راتوں میں چاند بننا کوئی تو سیکھے
فی زمانہ سوشل میڈیا پہ پھیلتی ہوئی موجودہ سیاسی مذہبی اور مسلکی بدتمیزی و بد تہذیبی نے آخرکار کہاں جا کر رکنا ہے۔؟ کوئی تو ایسی حد فاصل ہو کہ جہاں سے آگے بڑھنے پر پابندی ہو؟ کوئی تو ایسا راہنماء مصلح اور داعی ہو جو اس تیزی سے پھیلتے ہوۓ طوفان بدتمیزی کے آگے بند باندھے۔اصلاح معاشرہ کی دعویدار تنظیمیں علماء و صلحاء اور باوقار سیاسی راینماء سب کہاں چھپے ہوۓ ہیں۔؟ یہ کیسا قحط الرجال ہے کہ ہر طرف ویرانی ہی ویرانی دکھائی دینے لگی ہے۔؟
”کہاں گئے وہ علماۓ امت جنہیں حضور ﷺ کے علم کا وارث گردانا جاتا ہے۔جنہوں نے امت واحدہ کے تصور کو مضبوط کرنا تھا اور سب مکاتب فکر میں اتحاد و اتفاق کیلئے کام کرنا تھا۔ بدقسمتی سے یہ ہستیاں بھی اب اپنے اپنے نکتہ نظر ہی کی ترویج کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔دکھائی ایسے دے رہا ہے کہ یہ لوگ خود امت کو جوڑنے کی بجاۓ توڑنے پہ لگے ہوۓ ہیں۔ فی زمانہ رواداری اور مذہبی ہم آہنگی اب مفقود اور شجر ممنوعہ بنتی جا رہی ہے۔ایسے میں ایک انسان بھلا کس سے راہنمائی مانگے کیونکہ ان سے تو اب توقع ہی اٹھتی جا رہی ہے۔؟ اور حقیقت میں لوگ ان سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔“
”کہاں گئے وہ صلحاء امت اور حاملین جبہ و دستار جن کے بارے میں تصور تھا کہ برصغیر میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم انہی برگزیدہ ہستیوں کے ذریعے اسلام کا نور پھیلا اور جہالت کی تاریکیاں چھٹ گئیں۔ فی زمانہ یہ لوگ اب صرف اپنے حجروں آستانوں اور خانقاہوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ حیرت ہے کہ یہ لوگ باہر نکل کر رسم شبیری کیوں نہیں ادا کرتے جو کبھی ان کا شیوہ اور طرہ امتیاز سمجھی جاتی تھی۔“
”کہاں گئیں وہ اصلاح معاشرہ کی دعویدار تنظیمیں جنہوں نے اس دم توڑتے ہوۓ معاشرے کو سنوارنا اور نکھارنا تھا۔؟لیکن اب وہ ہماری دم توڑتی ہوئی مشرقی اقدار و روایات اور معاشرے کی بربادی و تباہی پر خاموش ہیں۔“
”کہاں گئے وہ راہنمایان قوم اور دعویداران جمہوریت جو صرف قوم کی خدمت کا نعرہ لگا کر اسمبلی کے ایوانوں کیلئے منتخب ہوا کرتے تھے اور اپنے مخالف سے بھی بڑی شائستگی اور وقار سے بات کیا کرتے تھے۔وہ تنقید براۓ تنقید نہیں بلکہ تنقید براۓ اصلاح کیا کرتے تھے اور بدترین مخالف کے ساتھ بھی بد تمیزی و بد تہذیبی والا رویہ نہیں اپناتے تھے اور نہ کبھی کسی کی ذاتیات کو زیر بحث لاتے تھے۔“
معاشرے میں موجود انہی اخلاقی بیماریوں کی وجہ سے آج ہم قعر مذلت میں گر چکے ہیں۔ہماری عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے اور مقدمات بھی وہ جو زیادہ تر اخلاقی نوعیت کے ہیں۔جیلیں قیدیوں سے بھری ہیں۔ جگہ جگہ گلی گلی اور کوچے کوچے میں لڑائی جھگڑے گالم گلوچ اور طوفان بدتمیزی کی بھرمار ہے۔ ہر جگہ سر پھٹول اور بربریت کے مظاہرے عام ہیں۔ یہ سب کچھ انہی اخلاقی برائیوں کا نتیجہ ہے۔ہمیں یہ سوچنا ہے کہ یہ کب تک چلے گا اور کب ہمارا معاشرہ بدلے گا۔؟ ہمارا معاشرہ یقینا“اس دن بدل جائے گا :-
”یقینا“ ہمارا معاشرہ اس دن بدل جائے گا جس دن حکمرانوں اور افسروں کے دل میں یہ خوف بیٹھ جائیگا کہ ہمارا بھی احتساب ہو سکتا ہے۔ہم کتنے نا سمجھ اور نادان ہیں کہ ہم بھول چکے ہیں کہ ایک اور ایسی ذات بھی ہمارے درمیان موجود ہے ہر پل ہر وقت اور ہر جگہ ہمیں دیکھ اور واچ کر رہی ہے اور نہ صرف دیکھ رہی ہے بلکہ ہماری ہر حرکت ہر عمل اور ہر سرگرمی کو اچھی اور بری ہونے کے لحاظ سے نوٹ بھی کیا جا رہا ہے۔“
وہ ذات خداوند قدوس کی ذات ہے جو علیم بذات الصدور ہے۔جو ہماری ہر حرکت اور ہر عمل پر نظر رکھے ہوۓ ہے۔جو ہمارے دلوں کے بھید بھی خوب جانتا ہے اور کائنات میں موجود ہر شے پر قدرت رکھتا ہے۔وہ اپنے فرشتوں کرامن کاتبین کے ذریعے ہمارے ہر عمل اور حرکت کو اچھی اور بری ہونے کے لحاظ سے نوٹ بھی کر رہا ہے۔جو ان نوٹ کیگئی چیزوں کو بروز قیامت ہمارے اعمال پر مبنی ایک کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے رکھ دیگا اور پھر اسکے مطابق ہی ہماری جزا و سزا کے بھی فیصلے کریگا۔
لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور بد تہذیبی و بدتمیزی کو یوں ہی فروغ ملتا رہا تو پھر معاشرے کی بربادی کا انتظار کرو۔ ایک ایسی تباہی کا کہ جس میں کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں رہے گی اور تباہی پھیلانے والے عناصر جب چاہیں گے اور جہاں چاہیں گے اسکی پگڑی اچھال دیا کریں گے اور پھر ہم اسکے تدارک کیلئے کچھ بھی نہیں کر سکیں گے کیونکہ کوئی بھی قوم جب اخلاقی برائیوں میں گھر جاتی ہے اور حرام کاری، زنا کاری، اور برے کاموں کی حدوں کو پار کرلیتی ہے تو اللہ رب العالمین اس پہ اسی جیسے حکمران مقرر کر دیتا ہے اور دوسری قوم کو ان پر مسلط کردیتا ہے، اگر وہ ایک سلجھی ہوئی اور سمجھدار قوم ہے تو ڈوبنے کے بعد دوبارہ ابھرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن اگر اس کے اندراپنا محاسبہ کرنےخود کو سدھارنے اور حالات سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہوتی تو پھر وہ تاریخ کے صفحات میں گم ہوجاتی ہے اور ایک قصہ پارینہ بن کے رہ جاتی ہے۔اب اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ وہ خیر امت ہی رہیں تو انہیں اپنی نسلوں کو تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ دین کا خوگر بنانا ہوگا، انہیں صحیح غلط کا فرق سمجھانا ہوگا،انہیں اچھے اور برے کی تمیز سکھانا ہوگی۔ انہیں حلال و حرام کی تمیز سکھانی ہو گی، انہیں اخلاق کی اعلی قدروں پہ فائز کرنا ہوگا، تبھی جا کے حقیقی کامیابی نصیب ہو پائے گی، ورنہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان پہ گھیرا تنگ ہوتا جائے گا اور اخیر میں سر پٹک پٹک کے دعائیں مانگنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا اور ہم یونہی دنیا میں ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے