موبائل فون اور انٹرنیٹ دور جدید کی وہ ایجادات ہیں جنہوں نے اس دنیا کو سمیٹ کر ایک مٹھی میں بند کر دیا ہے اور دنیا ایک گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر گئی ہے۔کیا چھوٹا اور کیا بڑا ہر شخص اس کا اسیر نظر آتا ہے۔فی زمانہ اس کے فوائد کو بھی اتنی آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان ایجادات کی بدولت انسان ایک دوسرے سے نتھی ہو گیا ہے ۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ دور جدید کی چند ایسی اہم ایجادات میں سے ہے جس نے انسانی زندگی کا رخ یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ بیس پچیس سال کے قلیل عرصے میں ساری دنیا موبائل فون اور انٹرنیٹ کے زیر تسلط آچکی ہے۔ گویا ساری دنیا موبائل فون اور انٹرنیٹ کی زلف گرہ گیر کی اسیر ہوچکی ہے۔کیا چھوٹاکیا بڑا، کیامرد کیا عورت ،تاجر و مزدور،آجر و ملازم ہر کوئی اپنے آپ کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کے بغیر ادھورا محسوس کرنے لگاہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وجہ سے معلومات کا ایک نہ تھمنے والا سیلاب امڈتا چلا آ رہا ہے۔ معلومات کے اسی سیلاب کی وجہ سے ساری دنیا آج آپس میں باہم مربوط ہوچکی ہے۔
کسی بھی چیز کے مثبت اور منفی دو پہلو ہوتے ہیں ۔ باالفاظ دیگر ہر انسانی ایجاد میں افادیت کے ساتھ نقصان کا بھی اندیشہ پایا جاتا ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ بھی دیگر اشیا ء کی طرح بذات خود کوئی نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں جب تک ان کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔انٹرنیٹ اور موبائل فون انسانی استعمال کے محتاج ہیں۔جب ہم اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں یہ فائدہ مند ہوں گے اورجب ہم اپنے مقصد سے انحراف کرنے لگیں تب یہ نقصان کا سبب بن جائیں گے۔اس لیےء ان کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیےء تاکہ ان سے فائدہ حاصل ہو نہ کہ وہ نقصان کا باعث بنے۔
موبائل فون اور انٹرنیٹ بھی بے شمار فوائد کے ٖساتھ ساتھ نقصان و ضرر کے پہلو لئے ہوئے ہے۔انٹرنیٹ اور موبائل فون یقینا آج کی اہم ایجادات میں شامل ضرور ہیں۔ لیکن نقصان والے پہلوؤں کی بنا پر انسانی زندگیوں کے لئے یہ سوہان روح اور مہلک بنے ہوئے ہیں۔بالخصوص نوجوانوں میں ناسور کی طرح پھیلتی بے چینی ،بے راہ روی اور دیگر معاشرتی مسائل کے سر اٹھانے میں انٹرنیٹ اور موبائل کے بے جا اور غیر ضروری استعمال کو ہر گز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ معاشرتی انحطاط اور نوجوانوں کی بے راہ روی کی بنیادی وجہ دینی تعلیمات سے دوری ہے۔بچوں کی بلوغت کا دورخاص طور پر نگہداشت اور تربیت کا متقاضی ہوتا ہے۔ یہی وہ خطرناک عمر ہے جہاں کسی بھی بچے کے بگڑنے اور سدھرنے کے یکساں امکانات پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا اس عمر میں بچوں کی دلچسپیوں اور ان کے مشاغل پر خصوصی نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس نوخیز عمر میں وقت اور اشیاء کے مناسب استعمال اور ترجیحات کی تعلیم اہم ہوتی ہے۔زندگی کے اس نازک موڑ پر اگر نوجوانوں کو اسوہ رسول اکرم ؐسے آگاہ کردیا جائے اور اسوہ حسنہ کو بطور ماڈل اپنانے کی تعلیم وترغیب دی جائے تو یہی انٹر نیٹ اور موبائل فون جو اپنے آپ میں بربادی اور ہلاکت کے سامان چھپائے بیٹھے ہیں انسانیت کی فوز و فلاح کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔انٹرنیٹ اور موبائل فون کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل مخرب اخلاق اور منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوکر اپنا قیمتی وقت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتیں ضائع کر رہے ہیں۔
موبائل اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے نوجوان نسل بے حیائی اور اخلاقی بگاڑ کا شکار ہورہی ہے۔سوشل میڈیا کی جانب سے اخلاقی بگاڑ کے علاوہ بچے مذہب سے بھی متنفر ہونے لگے ہیں۔فیس بک، وٹس ایپ کی لعنت بچوں اور بڑوں سے نشے کی لت کی طرح چمٹ گئی ہے ۔ نا معلوم لوگوں سے دوستی بچوں کے لئے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ موبائل فون، انٹر نیٹ فیس بک ،واٹس ایپ وغیرہ بچوں کے ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں پر قدغن لگارہے ہیں۔والدین اور سرپرست حضرات بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کی وقتا" فوقتا" جانچ کرتے رہیں ۔ نوجوان نسل کی دینی تربیت کا خصوصی اہتمام کریں۔ بچوں کو اخلاقی بگاڑ اور سماجی خرافات سے بچانے کے لئے دینی تربیت کو لازمی بنائیں کیونکہ دینی فکر سے ہی انسان اچھے اور برے میں تمیز کے لائق بنتا ہے۔اقبال ؒ فرماتے ہیں ۔
آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی ۔
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
دوسری طرف انٹرنیٹ اور موبائل فون کے بے جا استعمال سے انسان تنہائی پسند ہو کر رہ گیا ہے۔سوشل میڈیا پر جن کے ہزاروں دوست ہوتے ہیں لیکن حقیقی زندگی میں ان کا کوئی پرسان حال، دوست اور غم خوار نہیں ہوتا۔کڑے وقتوں پر ایسے افراد کا نفسیاتی عوارض میں گرفتار ہونا اور مایوسی کا شکار ہونا ایک فطری امر ہے۔انٹرنیٹ اور موبائل کی وجہ سے خاندانی تانے بانے بکھرنے لگے ہیں۔موبائل کے بے جا استعمال نے والدین کو اولاد سے،شوہرکو بیوی سے ،اولاد کو ماں باپ سے گھر میں رہتے ہوئے بھی گفت و شنید سے محروم کر دیا ہے۔ یہ بہت ہی قابل تشویش پہلو ہے کہ بچوں کو کمپیوٹر، موبائل گیمز اور انٹرنیٹ سے فرصت ہی نہیں، ماں باپ کو اپنی نوکری اور سوشل میڈیا کے دوستوں سے فرصت نہیں ۔انٹرنیٹ اور موبائل کے بے جا استعمال کی وجہ سے ہم نے بچوں کی صحیح تربیت ،رشتے داروں کے حقوق و صلہ رحمی اور ازدواجی حقوق کو پس پشت ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ تیزی سے تنزل کی جانب گامزن ہے۔رشتے داریاں ختم ہونے لگی ہیں اور خاندان بکھرنے لگے ہیں۔
ایسے میں یہ والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ بڑے ہو کر اچھے انسان بنیں ۔چونکہ نیک اولاد کسی بھی انسان کے لئے بیش بہا قیمتی سرمایہ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے گراں قدر عطیّہ ہوتا ہے، اس لئے والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاں اپنے بچوں کی بہتر نشوونما کے لئے صحیح نگہداشت و پرورش کا سوچتے ہیں وہیں ان کو چاہئے کہ وہ بچوں کی درست خطوط پر تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں ،کیونکہ اگر آج ان پیارے اور لاڈلے بچوں کو پاکیزہ اخلاق اور نیک خصال سے آراستہ کردیا جائے گا تو یقیناً آج کی یہ معصوم کلیاں مستقبل میں گلستانِ حیات کی خوبصورتی اور اس کی رونق کو دوبالا کرنے کا باعث ہوں گی، اور اگر خدانخواستہ اپنے عیش کی دنیا کی فکر میں بدمست ہوکر ان کی تربیت کا معاملہ لا اُبالی پن کی نذر ہوگیا تو آنے والا دن یقیناً والدین کے لئے بڑا اذیّت ناک اور سوہانِ روح ہوگا۔
تمام مخلوقات میں انسان کی تربیت سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ انسان ہی روئے زمین کا واحد فرد ہے جس پر زمین کی اصلاح و فساد کا انحصار ہے۔ اس انسان کو اللہ نے ارادہ و اختیار کا مالک بناکر دیگر تمام مخلوقات سے ممتاز بنایا۔ اور اُس کو خیر و شر، نیکی و بھلائی کی راہ دکھانے کے لئے کتاب بھی دی اور انبیاء کرام کا سلسلہ بھی جاری کیا۔ جو آدم سے شروع ہوکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا۔ انسان کی نسلوں کو اسی اعتبار سے تربیت کے لمبے عرصہ اور مرحلوں سے گذارنے کی تلقین اور تعلیم تمام ادیان میں اور تہذیبوں میں ملتی ہے۔ کیونکہ اس انسان کے اعمال پر اس دنیا میں امن یا فساد، نیکی یابرائی، محبت یا نفرت کا دارومدار ہے۔ انسانوں کے لئے اللہ کی طرف سے ازلی ابدی سلسلہ ہدایت کی آخری کڑی قرآن پاک اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اس عظیم ذمہ داری کی اہمیت اور اس کے طریقہٴ کار کے لئے رہنمائی فرمائی کہ انسان کس طرح اپنی آنے والی نسلوں کو خود ان کیلئے اور تمام انسانیت کے لئے مفید اور باعث خیر بنا سکتا ہے