اپنا گھر اپنی چھت سکیم | Sohail Bashir Manj

گزشتہ دنوں حکومت پنجاب کی طرف سے ایک شاندار سکیم شروع کی گئی جس میں وہ خاندان جو کرایہ کے گھر میں رہتے ہیں ان کے پاس شہری علاقے میں پانچ مرلہ یا  دہی علاقے میں دس مرلہ کا پلاٹ ہے تو وہ اپنا گھر بنانے کے لیے حکومت سے اپنا گھر اپنی چھت سکیم کے تحت پندره  لاکھ روپے قرض لے سکتے ہیں کیونکہ  ایک کرایہ دار اگر  ساری زندگی بھی کرایہ دیتا رہے تو وہ گھر اس کا نہیں ہوگا جبکہ اس سکیم کے تحت آخر ایک دن وہ قرض کی رقم ادا کر کے مالک ضرور بن جائے گا بلا شبہ فلاحی ریاستیوں کا اپنی عوام کے ساتھ ایسا ہی رویہ ہونا چاہیے  اسی ضمن میں گزشتہ روز میری جناب محمد سیف اللّه صاحب ڈی جی ہاؤسنگ کے ساتھ بات ہوئی انہوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس پروجیکٹ کے حوالے سے بریفنگ دی اس سکیم میں اب تک اسی ہزار افراد درخواست دے چکے ہیں میرے سوال پر انہوں نے بتایا کہ اس قرض کی واپسی سات یا نو سال میں کرنی ہوگی جس کی ماہانہ قسط چوده ہزار روپے تک رکھی جائے گی جس کی ادائیگی آسان ہے اور اس سکیم کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا سود یا 
منافع شامل نہیں ہے یعنی آپ نے جتنا قرض  لیا ہے اتنا ہی واپس کرنا ہوگا اس وقت اگر چاروں وزرائے اعلی کی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف محترمہ مریم نواز صاحبہ ہی کام کرتی نظر آ رہی ہیں 
 میرے خیال میں اس خوبصورت منصوبے کو مزید خوبصورت بنانے کی گنجائش باقی ہے اس وقت پنجاب کے تمام شہروں کی نسبت آبادی اور رقبے کے لحاظ سے سب سے تیزی سے پھیلتا ہوا شہر لاہور ہے جس  رفتار سے  لاہور کی آبادکاری میں اضافہ ہو رہا ہے خدشہ ہے کہ مستقبل قریب میں لاہور بہت سے مسائل کا گڑ بن جائے گا جس میں صحت ،تعلیم، ٹریفک، سیوریج،پبلک ٹرانسپورٹ ، پینے کے صاف پانی کی کمی کے مسائل شامل ہیں اس لیے حکومت کو اس سکیم کا از سرنو جائزہ لینا ہوگا لاہور کو ہر حال میں مزید بڑھنے سے روکنا ہوگا 
حکومت پنجاب بجائے قرض دینے کے لوگوں کو گھر دینے کا انتظام کر لے تو بہت بہتر ہوگا یہ منصوبہ چونکہ غریب اور درمیانے درجے کے لوگوں کے لیے ہے لہذا یہ لوگ وہیں چلے جائیں جہاں انہیں روزگار ملے گا اس قرض پروگرام کی اگر نوعیت تبدیل کر دی جائے تو میرے خیال میں زیادہ بہتر ہوگا 
پہلے مرحلے میں پنجاب کے دس اضلاع  کا انتخاب کیا جائے جن میں لاہور، فیصل آباد، گجرانوالہ، راولپنڈی ،سیالکوٹ، گجرات، ملتان، بہاولپور ،ساہیوال ،ڈی جی خان اور راجن پور  اور  جہاں جہاں انڈسٹریل  اسٹیٹس موجود ہیں ان کے بالکل ساتھ یا سامنے نئے شہر بسائے جائیں جہاں گھروں کی بجائے فلیٹ متعارف کروائے جائیں اور ایک فلیٹ ایک شخص نہیں بلکہ ایک خاندان کو دیا جائے وہاں پر گیس، بجلی پانی، سکول ،ہسپتال، پارک ،فنی تعلیم کے ادارے، خواتین کے لیے ٹریننگ سینٹر بنائے جائیں تاکہ یہ لوگ اپنے گھر سے پیدل فاصلے پر اپنا روزگار کمائیں اپنے بچوں کا پیٹ بھی پا لیں اور فلیٹ کی قسط بھی ادا کرتے جائیں جس طرح حکومت نے یہ سکیم  متعارف کرائی ہے اس میں چوده ہزار روپے ماہانہ دینا بھی آسان نہیں ہوگا کیونکہ جو شخص کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر ہے وہ ایک ہی وقت میں کرایہ ، بجلی گیس کے بل ،قسط اور گھریلو اخراجات برداشت نہیں کر سکتا اور  اس پروگرام میں جس طرح یہ شرط رکھی گئی ہے کہ جس کے پاس پانچ یا دس مرلہ کا پلاٹ ہوگا وہی اس سكیم سے مستفید ہونے کا اہل ہوگا اب پنجاب کے بہت سے شہروں میں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جن کے پاس پلاٹ نہیں ہے لیکن وہ کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر ہیں ان کا کیا بنے گا 
محترمہ وزیراعلی برائے کرم میری اس تجویز کو غور کے لیے رکھ لیں آپ کو ہر حال میں لاہور کو مزید پھیلنے سے  روکنا ہوگا نہیں تو  جتنی مرضی میٹرو ٹرینیں چلا لیں اس رش کو کنٹرول کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکے  گی اور میری تجویز ہرگز ایسی نہیں جو قابل عمل نہ ہو 
ملائشیا میں ایک پورٹ اور انڈسٹریل سٹی پینانگ کے نام سے ہے  ملایشیا نے اسی ماڈل پر کام کیا جس وقت ملائشیا کے لوگ روزگار کے لیے حصول کے لیے کوالالمپور     کی طرف ہجرت کرنے لگے جس سے ان کا  کیپیٹل سٹی لوگوں سے بھر گیا وسائل کی کمی ہونے لگی تو انہوں نے فوری طور پر پینانگ کو آباد کرنے کا فیصلہ کیا اس وقت
 آپ کو پینانگ میں چار چیزیں نظر آئیں گی  ان کا کینٹ ایریا، انڈسٹریل سٹیٹ، پورٹ اور بلند و بالا عمارتیں حکومت ملائشیا نے پینانگ میں ہر وہ سہولت پہنچا دی جو کوالالمپور میں موجود تھی بہترین روڈ نیٹ ورک ،ریپڈ ٹرانسپورٹ سسٹم ،ہسپتال، سکول، کالجز، فنی تعلیم کے ادارے ،ہوٹل کلب ،مال جب تمام سہولتیں لوگوں کو اپنے ہی شہر میں میسر ہو گئیں  تو انہوں نے کولالمپور کی طرف ہجرت روک دی 
 اب جس قدر لاہور پھیل چکا ہے 

جناب وزیراعلی آ پ کو بھی یہ ہر حال میں کرنا ہوگا جس طرح اس سے پہلی حکومت میں  جب  میاں شہباز شریف وزیراعلی تھے تو انہوں نے میرا گھر سکیم کے تحت فلیٹ سسٹم متعارف کروایا تھا یہ ان کا بہت کامیاب تجربہ تھا تھوڑی زمین استعمال کر کے بہت سے گھر بنا دیے  گئے جب ایک ہی جگہ پر بیس بیس منزلہ عمارتیں کھڑی ہو جائیں گی تو اس کی کاسٹ میں بھی کمی آ جائے گی اور اس سکیم میں غریب لوگوں کو بھی حصے دار بنا لیا جائے گا ویسے بھی انشاءاللہ آنے والے ایک دو سالوں میں چائنہ اور روس اپنی انڈسٹری کا ایک بڑا حصہ پاکستان منتقل کرنے جا رہے ہیں تو بہتر ہوگا حکومت پنجاب بھی آج سے ہی تیاری شروع کر دے جہاں جہاں انڈسٹریل سٹیٹس اور زون بنائے گئے ہیں ان  کے بالکل ساتھ نئے شہر بسانے کا انتظام کر دیا جائے کیونکہ جس وقت یہ انڈسٹری چلے گی تو فوری طور پر وہاں رہائش کی ضرورت بڑھ جائے گی اگر وہاں پہلے سے ہی نئے شہر بسا دیے جائیں تو یہ انڈسٹریل زون کی کامیابی میں اہم کردار ادا کریں گ