تحریر: محمد حسنین ہراج۔
"جداہودین سے سیاست تورہ جاتی ہے چنگیزی"
جس ریاست میں مذہب اورسیاست کوجداکردیاجاۓ یعنی مذہب کومسجدتک محدودکردیاجاۓ توپھروہاں ظلم وجبرپرمبنی سیاسی ومعاشی استحصالی نظام ہی جنم لیتاہے۔ایسے نظام میں عوامی اظہارراۓ کی آزادی کاحق سلب کر کرلیاجاتاہے۔اورلوگوں کوابدی غلامی ومحکومی کی زنجیروں میں جکڑدیاجاتاہے۔فکریزیدمیں بھی اسی طرح کے سامراجی وجودکی نشونمائی کاعمل جاری تھا۔فکرحسین نے کربلاکے تپتے ریگزاروں میں جرأت واستقلال کے ساتھ اپنی شہادت کے زریعے ریاکاری کے اس بت کوپاش پاش کردیا۔10محرم الحرام کوپیش آنے والے اس دلسوز واقعہ پراس دن ہرآنکھ اشکبارتھی ہردل افگارتھا۔ہرچہرہ سوگوارتھا۔تھافضائیں مغموم تھیں۔آسمان لہوسے رنگین تھا۔زمین لرزگئی ہرسینہ غم سے چاک تھا۔جی ہاں یہ واقعہ کربلاہی تھایہ شہداۓ کربلاکی داستان غم ہی تھی۔جس سے پوراعالم ہست وبودغمگین تھا۔حضرت امام حسین علیہ السلام کی اس عظیم شہادت میں مسلمانوں کیلئے ایک عظیم سبق پنہاں ہے۔جوہمارے لئے مشعل راہ ہے۔جسے سمجھنے کیلئے فکرحسین کوسمجھنابہت ضروری ہے۔امام حسین علیہ السلام کی جنگ اقتدارکے حصول کی جنگ نہ تھی۔ان مقدس ہستیوں کااہل وعیال سمیت سرزمین مدینہ چھوڑناکسی دنیاوی مقصدکیلئے نہ تھا کربلاتک کے سفرکی تمام صعوبتیں کسی جائیدادوجاگیرکے حصول کیلئے نہ تھیں۔کربلاکی شدت پیاس کسی ذاتی غرض کیلئے نہ تھی۔کربلامیں معرکہ حق وباطل کسی تاج وتخت کیلئے نہ تھا۔ان سب دکھوں اورتکلیفوں کوبڑے حوصلے اورصبرکے ساتھ برداشت کرنااپنے ناناکے دین کی سربلندی اوراس فرسودہ یزیدی نظام کے خلاف تھا۔جس میں عدل وانصاف مساوات جیسے زریں اصول ناپیدہورہے تھے۔عام لوگوں کی حق تلفی ہورہی تھی۔لوگوں کوحق خودارادیت سے محروم کیاجارہاتھاجمہوری اقدارکی کوئی وقعت واہمیت نہ رہی۔اقرباءپروری کوپروان چڑھایاجارہاتھامنافرت ومنافقت کاکلچررڈویلپ ہورہاتھا۔عوامی فکری آزادی کوپایہ زنجیرکیاجارہاتھا۔قیصروکسری کے شاہی آداب بجالاۓ جارہے تھے۔شاہ خرچیاں اپنے عروج پرتھیں۔اسلامی جمہوری سیاست پریزیدی آمریت کارنگ چڑھایاجارہاتھا۔ایسے میں پھرامام حسین علیہ السلام جیسی ہستی کاخاموش رہناممکن نہ تھا۔پھرفکرحسین سے ہی فکریزیدکوشکست دی جاسکتی ہے۔فکرحسین کی یلغارسے فکرحسین کی للکارسے ہی ایسے یزیدی نظام کاقلع قمع کیاجاسکتاہے۔یزیدی نظام جس نے مسلمانوں کے'اساسی نظریات کوغیرمحفوظ کردیاتھامسلمانوں کی زندگیوں کواجیرن بنایا جارہاتھا۔کربلاؤں کاسفر اس حکومتی جبری استبدادکے خلاف تھا۔جس سے معاشرتی وسماجی'اعلی اقدارکومٹایاجارہاتھا۔ یزیدی کردارکاچہرہ توکائنات انسانی کے آغازسے ہی ظاہرہوتاآرہاہے۔یہ کردارہمیشہ انسان دشمن پالیسیوں کورواج دیتاہے۔انسانیت کے ان اصولوں سے ہمیشہ پہلوتہی اختیارکرتاہے۔جن پرعمل کرنے سے ایک مثالی معاشرہ استوار ہوتاہے۔اصولی قوانین کاحکومتی جبرکے زریعے خاتمے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے۔جن کے دامن سے تڑپتے انسانوں کیلئے امن وسکون اورخیرکے پہلواجاگرہوتے ہیں۔یزیدی کردارکے زریعے معاشرہ زبوں حالی کاشکارتوہوتاہی ہے۔مگرافراد کے قلوب واذہان پرایک نظریہ مسلط کرنے کی ہرممکن سعی کی جاتی ہے۔جواس کردارکے اقتدارکودوام بخشنے کیلئے ناگزیرہوتاہے۔حیدرکرارمولاعلی علیہ السلام کے عظیم فرزند کی جنگ بھی ایک ایسے ہی گھناؤنے کردارکے خلاف تھی۔جویزیدکی شکل میں کرسی اقتدارپرمتمکن تھا۔یزیدنے مسلمانیت کالبادہ اوڑھ کراپنے اندرانسانیت دشمن زیریلاسانپ پال رکھاتھا۔یزیدی فکروسوچ آمرانہ بادشاہت کے سواکچھ نہ تھی۔حکومتی بقاءکیلئے وہ تمام حدیں پھیلانگناچاہتاتھاجو اسلامی وجودکیلئے نقصان دہ ہی کیوں نہ ثابت ہوں۔اسے اپنے اقتدارکوبچانے کیلئے اہل بیت اطہارعلیہ السلام کی حرمت وعظمت کاذرابرابربھی خیال نہ رہا۔اسے انسانیت کے اصولوں کی بالکل پاسداری نہ رہی۔اسوقت کاایک نیک اورصالح معاشرہ جس کے وجودکی دنیامیں کوئی دوسری مثال نہی ملتی تھی۔اسے اپنی سامراجی اوراستعماری فکروسوچ کے زریعے زخمی اورلہولہان کردینے میں کوئی کسرنہ اٹھارکھی تھی۔نواسہ رسول جگرگوشہ بتول حضرت امام حسین علیہ السلام کویہ بات ہرگزگوارانہ تھی۔وحشت وبربریت پرمبنی اس حکومتی استعماری نظام کوخاموشی کے ساتھ تسلیم کرلیاجاۓ۔
یزیدبخوبی جانتاتھاکہ اگرساری امت مسلمہ بھی میری بیعت کرلے مگرحضرت امام حسین علیہ السلام کے بیعت نہ کرنے سے اقتدارکے دن گنتی کے رہ جائیں گے۔حضرت امام حسین علیہ السلام بھی جانتے تھے یزیدی ہاتھ پر بیعت کرلینے سے ظالم کے بڑھتے ہوۓظلم کوبڑھاوادیناہے۔آپ نے بیعت نہ کرکے تمام مسلمانوں کے سامنے یزیدی کردارکوبے نقاب کردیا۔آپ نے بیعت نہ کرکے فکریزیدکوجھنجوڑکررکھ دیا۔آپ کے بیعت نہ کرنے سے یزیدی تخت لرزہ براندام ہوگیا۔یزیدی بیعت سے انکارکے' بعدآپ یزیدکے اس حکومتی کردارکے خلاف کمربستہ ہوگئے ۔جس سے اسلامی اقدارمٹتی نظرآرہی تھیں۔آپ نے عملی طورپرجذبہ ایثارکے زریعے
یزیدکے اس منصوبے کوخاک میں ملادیاجس کے زریعے مستقبل میں اسلام کوشدیدخطرات لاحق تھے۔واقعہ کربلاجیسا سانحہ جوتاریخ انسانیت میں نہ پہلے کبھی برپاہوانہ قیامت تک برپاہوگا۔اس جنگ میں ظاہری طورپرتوامام حسین علیہ السلام' کوشکست ہوئی۔مگریہ شکست نہ تھی آپ کی یزیدکے خلاف جیت تھی جویزیدکے خاتمہ اقتدارکے ساتھ ظاہرہوئی۔محرم الحرام کوپیش آنے والے اس واقعے میں فکرحسین نے فکریزیدکوجڑوں سے کاٹ ڈالا اوریزید جیت کربھی ہارگیا۔اس واقعہ سے یزیدکے گلے میں قیامت تک کیلئے لعنت کاطوق پڑگیا۔یزیدنے پھراہل بیت اطہارکی شہادتوں پرہی اکتفانہ کیابلکہ مدینہ منورہ اورمکہ مکرمہ پرحملہ آورہواہزاروں مسلمانوں کاقتال کروایاگیامقدس مقامات کی بے حرمتی کروائی گئی۔امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے پورے عرب میں سوگواری کاماحول پیداکردیاتھا۔جگہ جگہ احتجاجی تحریکوں نے زورپکڑا۔جگہ جگہ گریہ وزاری کی صدائیں بلندہوئیں۔ اوریزیدکے ہاتھ پرکی ہوئی بیعت کاسلسلہ ٹوٹ گیایزیدی جسم سے وہ مسلمانیت کالبادہ اترگیاجس میں شیطان چھپابیٹھاتھاشمرذی الجوشن ابن زیاد عمربن سعد اوریزید یہ وہ لعنتی کردارتھے۔جنہوں نے اہل بیت اطہارکے خون سے اپنے ہاتھ رنگے اہل بیت اطہارپرظلم کی ایک داستان رقم کی اس بدترین عمل کیوجہ سے قیامت تک اس یزیدی ٹولے پرلعنتوں کے'انبار پڑتے رہیں گے۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے یزیدی نظام کوتہ تیغ کرنے کیلئے اپنے نوجوانوں کے ساتھ معصوم بچوں تک کوبھی اس راہ صبرووفامیں قربان کردیا اوراللہ کوراضی کیااہل بیت اطہارعلیہ السلام نے قیامت تک کیلئے اس راہ حق میں بے مثال قربانیوں کاعملی نمونہ پیش کرکے امت مسلمہ کیلئے ایک سبق چھوڑا۔جس پرعمل کرنے سے نہ صرف دین اسلام کوسربلندی حاصل ہوتی ہے۔بلکہ مسلمانوں کے عزت ووقارمیں بھی اضافہ ہوتاہے۔اللہ پاک ہمیں بھی فکرحسین کوسمجھنے اوریزیدیت کے سامنے ڈٹ جانے کی جرأت واستقامت عطافرماۓ۔آمین