شہر سیالکوٹ کی مردم خیزمٹی میں کوئی ایسی تاثیر ہے کی اس دھرتی نے پاکستان کا تصور دینے والے شاعر مشرق علامہ اقبال اور فیض احمد فیض جیسے اور کئی نامور اور قابل فخرسپوت پیدا کیے ایسی ہی نابغہ روز گار شخصیت جس نے سیالکوٹ میں جنم لیا، جناب ڈاکٹر اے آر خالد کی بھی ہے۔ جن کا شمار وطن عزیز کے ان مستند اور سینئردانشوروں اور اساتذہ میں ہو تا ہے۔ جن کے قلم کی روشنائی نے جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ نے زمانہ طالب علمی میں نمایاں پوزیشنوں سے کامیابیاں حاصل کیں۔ یونیورسٹی تک آتے آتے آپ میدان صحافت میں اپنانام اور مقام پیدا کر چکے تھے۔ آپ کے لکھے کالموں کو پاکستان کے دانشور، اور پڑھے لکھے طبقے میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی، پاکستان کے سنجیدہ اور محب وطن حلقوں میں آپ کی تحریروں کا ہمیشہ چرچارہا۔ آپ کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے اور آپکی تجاویز اور مشورے زندگی کے مختلف شعبوں میں فیصلہ کن قدم اٹھانے میں انتہائی ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ کی کتابیں بیرون ممالک یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ پاکستان کے اعلی تعلیمی اداروں سے آپ کے ہزاروں شاگرد جن میں طلبا ء و طا لبات دونوں شامل ہیں فارغ التحصیل ہو کر وطن عزیز میں فال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے تعارف کے لیے یہ چند سطریں ناکافی ہیں۔آپ کی علمی، ادبی خدمات بے مثال ہیں، آپ پاکستان کے تقر یبا سبھی اہم اخبارات میں کالم اور مستقل سلسلے لکھتے رہے ہیں آپ کی خدمات پر ایک مکمل کتاب لکھی جاسکتی ہے۔آپ خود بھی ڈیڑھ درجن سے زائد انگریزی اور اردو کتابوں کے مصنف ہیں۔ لیکن ہم یہاں ڈاکٹر صاحب کی لکھی ایک کتاب ”بدلتا ہے رنگ آسماں رنگ کیسے کیسے“کا تذکرہ کریں گے۔ جسے قلم فاؤنڈیشن انٹر نیشنل نے شائع کیا ہے۔کتاب کے ٹائیٹل پر پاکستان کے سابق صدر ایوب خان اور سابق امریکی صدر جان ایف کینڈی کی تصویر ہے۔ فاضل مصنف نے کتاب کا انتساب جرنل ایوب کے نام کیا ہے۔ جن کے دورِ صدارت میں پاکستان نے عالمی برادری میں وہ عزت وعظمت حاصل کی جسے ان کے بعد آنے والے نااہل اور نالائق حکمرا ن برقرار نہ رکھ سکے، جرنل ایوب کا دورِ اقتدار ایک ایسا سنہری دور تھا۔جس میں پاکستان نے دفاعی، صنعتی اور معاشی شعبوں میں ایسی لازوال ترقی کی کہ لوگ اب بھی اس دور کو یاد کرتے ہیں۔شاید یہی وجہ تھی کہ جرنل ایوب کے حکومتی ایوانوں سے رخصت ہونے کے بعد بہت برسوں تک ان کی تصویریں ایک فلمی گانے کے ایک مصرعے کے ساتھ بے تحاشہ بکتی رہیں، تصویر پر لکھا ہوتا تھا،
تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
اگر آپ اندرون لاہور چلے جائیں تو کسی بہت پرانی دوکان، ہوٹل یاگھر میں جہاں ایسے پرانے لوگ ہوں، جنہوں نے جرنل ایوب کا دور دیکھا تھا، وہاں یہ تصویر کسی پرانے فریم میں اب بھی کسی دیوار میں ٹنگی ہوئی مل جائے گی۔نیلا گنبد اور اس کے قرب و جوار اور پرانے لاہور کے دیگر کئی علاقوں میں کچھ لوگ فٹ پاتھ پر اب بھی تصویر یں اورطغرے فروخت کرتے ہیں شائد ان سے یہ تصویر اب بھی مل جائے،چند برس پہلے تو میں نے خود ایک جگہ یہ تصویر دیکھی تھی،جس پر لکھاتھا، تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔ان فٹ پاتھوں پر جو تصویریں بہت زیادہ فروخت ہوتی تھیں ان میں غوث پاک کی شبہیہ،(جس پر لکھا ہوا تھا”لے گیارہویں والے دا ناں تے ڈُبی ہوئی تر جاہیں گی“)جرنل ایوب خان، مدھو بالا، میناکماری، دلیپ کمار، درہ خیبر اور مینار پاکستان کی تصویر یں شامل تھیں۔
خیر بات ہو رہی تھی ڈاکٹر اے آر خالد کی نئی کتاب ”بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے“کی جو ڈاکٹر صاحب کے بہت میچور سیاسی تجربات،مشاہدات اور اہم واقعات پر لکھے گئے۔ایسے کالموں کا مجموعہ ہے۔جن کے پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کتنی گہری نظر اور توجہ سے دنیا میں ہونے وا لی سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں کو دیکھتے ہیں اور اس پر اپنی روشن بصیرت اور ٹھوس نظریاتی فکر و خیال کی وجہ سے ایک مضبوط رائے بھی رکھتے ہیں۔ڈاکٹر اے آر خالد صاحب، محب وطن اورپاکستان کا درد رکھنے والے انسان ہیں، وہ پاکستان کی بہتری ترقی اور کامیابی کے لیے ہمہ وقت فکر مند اور کوشاں رہتے ہیں، انہوں نے ہر دورِ حکومت میں صاحب اختیار و اقتدار لوگوں کو ہمیشہ مخلصانہ اور صائب مشورے دئیے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان مشوروں کو کس نے کتنا قابلِ توجہ سمجھااور کس کس نے انھیں قابلِ عمل سمجھ کر ان سے فائدہ اُٹھایا، ان کی تجاویز اور مشوروں کو درخور اعتنانہ سمجھنے والوں کو کیا نقصان ہوا اور وہ کس انجام سے دوچار ہوئے؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔
”بدلتاہے رنگ آسماں کیسے کیسے“کو مرتب کرنے کی وجہ کے بارے میں ڈاکٹر صاحب خود لکھتے ہیں،
”بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے“ میں کوشش کی گئی ہے کہ ان تحریروں کو یکجاکر دیا جائے جو گزشتہ ربع صدی سے زیادہ عرصہ میں ہر حکومت کے غلط فیصلوں او ر ا ن سے ملک اور قوم کو پہنچنے والے نقصان کی نشاندہی بھی کی جائے۔ اور ہم نیک و بد حضور کو سمجھاتے رہتے ہیں کہ مصداق غلط فیصلو ں سے اجتناب اور معمولی ذاتی
فائدے یا اقتدار کی ہوس و حرص کے لیے قوم اور وطن سے سنگین مذاق کر نے کے جرم سے بچاجائے۔اگرچہ میں نے خارجہ امور کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ کوئی جامد چیز نہیں وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ مگر کتا ب میں بیان کئے گئے اصولوں کو اختیارکر کے پاکستان کو خارجی سطح پر بہت معزز اور معتبر بنایا جاسکتا ہے،جسے نہ بدلنے اور نہ ہی آوٹ آف ڈیٹ ہونے کا خطرہ ہے یہ وہ بنیادی اصول ہیں، جنہیں بدنصیب قوم کے نااہل حکمران نظر انداز کر کے پاکستان کا نقصان کرتے رہے۔ مجھے ہر گز خارجہ امور کاماہر ہونے کا دعویٰ نہیں مگر اتنا دعویٰ ضرور ہے کے حب الوطنی کا جذبہ مجھے اس موضوع کا مطالعہ کر کے حکمرانو ں کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے اور اپنی اصلاح کرنے پر جس طرح ابھارتا رہا وہ ان تحریروں کو پُر تاثیر بناگیا“
ڈاکٹر اے آر خالد کو اس با ت کا شدید دکھ ہے۔کہ ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کے امیج کو بہت خراب کیا، یہ دکھ ہر اس محب وطن پاکستانی کا ہے۔ جو پاکستان سے محبت کرتا ہے۔ اور اسے دنیا میں اور اقوام عالم میں سر بلند دیکھنا چاہتا ہے۔ اس بات کا احساس نہیں ہے تو صرف ہمارے حکمرانوں کو نہیں ہے اور یہ بات ماضی اور حال کے حکمرانوں پر یکساں طور پر صادق آتی ہے۔ایک وقت تھا جب پاکستان کی خارجہ پالیسی اتنی عمدہ اور جان دار تھی کہ اس نے پوری دنیا کو متاثر کیا تھا اور دنیا بھر کی اقوام کو اپنا اسیر اور گرویدہ کر لیا تھا لیکن آج یہ حال ہے۔کہ بے شعور اور بے حس حکمرانو ں کے احمقانہ فیصلو ں کی وجہ سے رہا سہا وقار اور احترام کھوکر ہم اپنی شناخت بھی کھو چکے ہیں۔ اور عزت ووقار کو برقرار نہیں رکھ سکے۔اس تیز رفتار اور ترقی یافتہ دور میں دنیا سے کٹ کر اور تنہائی کا شکار ہو کر جینا بے حد دشوارہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ کسی بھی ملک کو دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو کس نہج پر رکھنا ہے اور اس کے لیے کیا اقدام ضروری ہیں یہ بہت اہمیت رکھتا ہے پاکستان جیسے ترقی پذیراور گو ناگوں مسائل میں گھرے ملک کی خارجہ پالیسی کیسی ہونی چاہیے۔اس کے لئے ہمارے کُند ذہن اور کو ر ذوق حکمرانوں کو ڈاکٹر خالد جیسے دانشور وں کی تحریر وں اور مشوروں سے استٖٖفادہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں (چاہے وہ اقتدار ہیں ہوں یا اپوزیشن میں) کے لیڈر ان کو چاہیے کہ وہ اس کتاب ”بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے“ کا بانظر غائیر عمیق مطالعہ کریں، اور خارجہ پالیسی کے وضع کردہ ان اصولوں پر عمل پیراہوں جن کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں شدومد کے ساتھ کیا ہے۔ تاکہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو کر اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر سکے۔