یوم تکبیر کی تقریب میں شرکت کے لئے28 مئی2013 نظریہ پاکستان ہاوٗس لاہور گیا۔بڑا ہجوم اور ن لیگ کی اعلیَ درجے کی قیادت موجود تھی۔مجمع بہت پرجوش تھا۔ نواز شریف کی آمد پر اور زیادہ جوش میں آگیا۔وزیر اعظم نوازشریف کے نعروں سے ہال گونجتا رہا۔ تقاریر ہوئیں۔ مجھ سمیت مجید نظامی مرحوم،ڈاکٹر اجمل نیازی،غوث علی شاہ اور بہت سے مقررین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مجید نظامی مرحوم نے اپنے خطاب میں نواز شریف سے کہا کہ بھارت سے کبھی بھی دوستی نہ کرنا۔میاں صاحب نے آخرمیں اپنے انداز میں خطاب کیا جو کہ مجھے کبھی بھی متاثر نہیں کرتا۔حد سے زیادہ خوشی اور جوش وخروش اور اپنے آپ میں مگن لوگوں کا عجیب اورنرالا ماحول تھا۔ اس فضا میں پنجاب کے لیڈران،کارکنان،نظریہ پاکستان کے اہلکاران اور سیکیورٹی اہلکاروں نے مجھ جیسے مہمان کو مکمل نظر انداز کریا۔بڑی مشکل سے گراونڈ فلور پر پہنچا۔بھیڑ میں بمشکل سیکریٹری نظریہ پاکستان کے آفس پہنچ سکا۔میرا چیف سیکیورٹی آفیسر بھی بڑی مشکل سے میرے نزدیک پہنچ سکا۔جس کمرے میں نواز شریف موجود تھے اسکے سامنے بہت ہجوم تھا۔میں نوازشریف سے بلوچستان کے معاملات پر بات کرنا چاہتا تھا۔لیکن کسی کو کوئی ہوش ہی نہیں تھا۔کہنیاں مار کر آگے بڑھنے والوں کے ہجوم میں آگے بڑھنے کے ہمت نہ پاکر میں نے اسلام آباد جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہاں ساڑھے چار بجے ایک میٹنگ میں شرکت کرنی تھی۔ چیف پائیلٹ نے کہا تھا کہ اگرہم تین بجے تک تو ٹھیک دوسری صورت میں ہم سات بجے کے بعد نکل سکیں گے کیونکہ اسلام آباد ائیرپورٹ اس دوران مرمت کے لئے بند ہوگا۔ہم باہر نکلنے کی جدو جہد کرہی رہے تھے کہ سابق سینیٹرروزنامہ زمانہ اور انگریزی روزنامہ بلوچستان ٹائمز کے ایڈیٹر سید فصیح اقبال مرحوم کہیں سے فرشتے کی طرح ٹپکے اور کہنے لگے کہا کہ آپ باہرکیوں کھڑے ہیں اندر چائے پینے کیوں نہیں گئے۔میں نے کہا شاہ یہ حالت نہیں دیکھ رہے آپ۔ ہم کو تو باہرنکلنے کے لئے بھی دھکے مل رہے ہیں کوئی پہچان ہی نہیں رہا۔ وہ وہاں موجود سٹاف پر اپنے انداز میں برہم ہوگئے کہ بھئی کمال ہے ہمارے صوبے کے وزیر اعلٰی اورسردار کے ساتھ یہ سلوک۔ میں نے ان سے کہا کہ چھوڑیں جانے دیں شاہ صاحب مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ان کے شور مچانے پر مجھے کمرے میں جانا نصیب ہوا۔
اندر کا ماحول خوشیوں اور خوش آمدوں کا حسین امتزاج تھا۔مجھے نواز شریف کے ساتھ بٹھایا گیا۔میں نے ان سے بلوچستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں گفتگو شروع کی۔میں نے ان سے کہا کہ اللہ رب العزت نے آپ کو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کا منفرد موقع دیا ہے اور اب آپ سے ساری قوم اور ہماری امیدیں وابستہ ہیں کہ اس با رآپ ملک عزیز کی قسمت بدل دیں گے۔بلوچستان کے حوالے سے میں نے ان سے کہا کہ جیسا کہ آ نے آپ نے کئی مواقع پہ کہا کہ سردار اخترجان مینگل کیخلاف عدم اعتمادمیں زیادتی ہوئی تھی اب اگرہم حکومت میں آئے اور اختر جان کی سیٹیں کم بھی ہوئیں تو ہمارے وزیر اعلٰی وہ ہوں گے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ان نشستیں کم آئی ہیں مگر آپ نے ان سے کوئی رابطے نہیں کئے اور اب بہت دیر ہوگئی۔ آپ بلوچستان میں اپنی پارٹی سے بالاتر ہو کرملک کے وسیع تر مفاد میں قوم پرستوں کو موقع دیں۔ میں نے ان کو سیاسی آوارہ گردوں سے گریز کرنے کا کہا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ تو سیاست میں ہوتا ہے۔ ان کا جواب ہر معاملے پر عجیب تھا۔دمکتے چہروں اور خوشامدانہ رویوں کے ساتھایک دنیا آباد تھی اور تکبر سے بھر پور میاں صاحب کا ایک شاہانہ انداز دیکھ کر مجھے گھن اور گھٹن محسوس ہورہی تھی۔ جنرل(ر) ذوالفقار موجود تھے بجلی کی کمی اور لوڈ شیڈنگ کی بات چلی تو جو مجھے سمجھ میں آیا وہ یہ کہ جنرل صاحب کوئی کام مانگ رہے تھے۔
میاں صاحب نے شاہانہ اندازمیں کہا کہ تسی ایپلائی کر دیؤ۔میں نے ان سے کہا کہ میاں صاحب جو میں نے کہا ہے کہ آپ اس ملک کی تقدیر کشادہ دلی،مخلصانہ سیاسی بصیرت سے بدل سکتے ہیں۔ میں نے جاتے جاتے کہا کہ آپ کی مرضی ہے لیکن میرا مشورہ ہے کہ آپ سیاسی آوارہ گردوں کو اپنے ساتھ کیبن(گاڑی کے) میں نہ بٹھائیں بلکہ پیچھے ڈالے میں ڈال دیں۔ میں نے پھر بھی کہاکہ اگر آپ نے میرے مشورے پر عمل کیا تو ملک و قوم اور آپ کی تقدیر بدل جائے گی۔ دوسری صورت میں جلد ہی اپنے آپ کومصیبتوں میں گھرا پائیں گے۔میری یہ گستاخی طبع نازک پہ گران گزری۔میں ان سمیت باقی لوگوں کوخدا حافظ کہہ کر باہرآگیا بعد میں مجھے بتایا گیا کہ میرے جانے کے بعد انہوں نے کہا یہ کیا کہہ رہے تھے۔ مجید نظامی مرحوم نے ان سے کہا باتیں بہت اچھی کیں ہیں۔شاید خجالت میں انہوں نے پوچھا کہ ان کا نام کیا تھا۔اس پر سید فصیح اقبال (مرحوم)نے کہا کہ کمال ہے
میاں صاحب یہ ہمارے بلوچستان کے ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھنے والے نواب ہیں۔اوربلوچستان کے وزیر اعلیٰ ہیں۔
آپ کو ان کا نام نہیں معلوم۔
مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ میرا نام جانتے تھے لیکن گھمنڈ،غرور اور تکبر کے اس پیکر نے میرے انداز کو شاید پسند نہیں کیا اور نخوت اور اپنی افتاد طبع کی وجہ سے یہ سوال کیا۔ میں نے جو کچھ بھی ان سے کہا کچھ عرصے بعد ہی سامنے آنا شروع ہو گیا۔ الیکشن کے نتائج پر تحفظات کے باوجود تمام پارٹیوں نے نتائج مان لئے۔ تحریک انصاف نے چار حلقوں کے نتائج کھولنے کا مطالبہ کیا جو کہ وجہ تنازعہ بنا۔ ماڈل ٹاوٗن میں عوامی تحریک کے کارکنوں کا بہیمانہ قتل اور مختلف واقعات دھرنے کا سبب بنے۔ اگر ان معاملات پر میاں صاحب نیک نیتی، اخلاص اور سیاسی بصیرت سے کام لیتے تو شاید آج اپنے کرپشن کے معروف برانڈ کے باوجود بچ نکلتے اور ملک اس افرا تفری اور غیر یقینی صورتحال میں نہ پھنستا۔لیکن اپنے خاندانی اقتدار کو دوام بخشنے کی طمع میں اپنے خاندان کو تاریخ میں ایک نہایت ہی شرمناک مقام پر پہنچا دیا۔ بے شک تکبر اللہ رب العزت کو زیب دیتا ہے۔