صفحہءِ خاک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد حسین مجاہد کا قلمی جہاد | Luqman Asad

پانی تھا میسر، نہ کفن تھا، نہ دعائیں 
بے طور، ہر اِک پیر و جواں دفن کیا تھا 
ملبے سے نکالے تھے کئی پھول، کئی خواب 
اب یاد نہیں کس کو کہاں دفن کیا تھا 
طویل مدت سے یہ بات میرے لاشعور میں بھٹکتی رہتی ہے اور میں اکثر یہ سوچتا رہتا ہوں کہ واقعتا قدرت نے کچھ خاص شخصیات سے بہت عظیم کام لینے ہوتے ہیں اور پھر قدرت ہی خود بخود انھیں ایسی بے نظیر خصوصیات اور لازوال صلاحیتوں سے نواز دیتی ہے کہ جس انفرادیت اور سرفرازی و سربلندی کا کام لینا ان سے مقصود ہوتا ہے۔ انسانی زندگی جہاں پُر کیف بہاروں، رونقوں، ہمہ قسم کے رنگ برنگے میلوں، ٹھیلوں، بے شمار خوب صورتیوں، پیار و محبت کی رنگینیوں اور رعنائیوں سے بھرپور ہے وہاں وحشتیں، اجاڑ موسموں سے اٹی دل خراش خزائیں اور جابجا بکھرے حوادث و المیات بھی اسی زیست کے ساتھ جڑے ہوئے نظر آتے اور محسوس ہوتے ہیں۔ مندرجہ بالا اشعار کے خالق وطن عزیز کے تاریخی شہر ”بالا کوٹ“ سے تعلق رکھنے والے بلند پایہ محقق، عظیم قلم کار، نام ور مصنف، صاحبِ طرز ادیب اور عالمی شہرت یافتہ ممتاز شاعر احمد حسین مجاہد ہیں۔ آپ نے یہ اشعار 8اکتوبر 2005ء؁ کو بالا کوٹ میں زلزلہ آنے کے باعث ہونے والی ناقابل بیان تباہی کے پسِ منظر میں کہے۔ احمد حسین مجاہد اس بڑے سانحہ کے چشم دید گواہ ہیں۔ وہ خود اس سانحہ کے متاثرین میں شامل ہیں۔ ان کا گھر بھی زلزلہ کی زَد میں آکر ملبے کا ڈھیر بن کر رہ گیا تھا اور ان کے بہت قریبی دوست و اقارب اور رشتے دار ہمیشہ، ہمیشہ کے لیے انھیں چھوڑ کر جہان فانی سے رخصت ہوگئے تو احمد حسین مجاہد نے اپنے اس دکھ کو شعری پیرائے میں یوں بیان کیا۔ 
نمازِ عصر پڑھی تھی مکاں کے ملبے پر 
تلاوتِ غمِ انساں میں دن گزارا 
2005ء؁ کے اس ہولناک زلزلے کی اندوہناکیوں اور تباہ کاریوں کی لرزا دینے والی اس داستان اور رودادِ رنج و الم کو احمد حسین مجاہد نے اپنی کتاب ”صفحہء خاک“میں نہایت دل سوز انداز میں قلم بند کیا ہے اور کتاب کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں ”اور پھر یوں ہوا کہ مجھے اپنے خواب لکھنے کی فرصت ہی نہ رہی۔ 8اکتوبر نے مجھے ملبے سے گم شدہ آوازیں چننے پر مامور کر دیا۔ میں سسکیوں، آہوں، نوحوں اور خوابوں سے خالی آنکھوں کے ہجوم میں صفحہ خاک پر بنی ہوئی تصویروں کی تفسیر کرتا رہا۔ کچھ میں ہی جانتا ہوں کہ میں نے ایک ایک لفظ کس کرب کے ساتھ تحریر کیا“۔”ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو“کے عنوان سے ایک اور جگہ دردِ دل بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ”اب میری داستان اس موڑ تک آپہنچی ہے جہاں قدم قدم پر زمین میرے پاؤں پکڑتی ہے۔ سانسوں میں گرہ پڑتی ہے اور لفظ اپنے معانی کھو دیتے ہیں۔ میرا آگے بڑھنا مشکل ہوجاتا ہے۔میں ملبے پہ بکھری ہوئی کتابوں اور کھلے ہوئے بستوں سے جھانکتی کہانیوں کے درمیان کھڑا ہوں۔ مجھے دعائیہ نظم ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری“ کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور میرے اندر کے صحرا میں کہیں ریت اُڑنے لگتی ہے۔ راولا کوٹ سے آلائی تک گرے ہوئے سارے اسکول میرے ذہن کے کینوس پر ابھرتے ہیں لیکن کوئی تصویر نہیں بنتی۔ میرے پاؤں میں ایک ان دیکھی زنجیر پڑی ہوئی ہے اور میں وقت کے دھارے کی مخالف سمت میں سفر کرنے لگتا ہوں۔ مراجعت کا یہ سفر کتنا کٹھن ہے۔۔۔۔!
میں بانجھ مناظر سے ہوتا ہوا وہاں پہنچ جاتا ہوں جہاں ابھی 8اکتوبر کی صبح طلوع ہورہی ہے۔ بچے اسکول جارہے ہیں۔ ہنستے مسکراتے بچے، اٹھکیلیاں کرتے پھول سے معصوم بچے۔۔۔۔!
کسی کے گمان میں بھی نہیں کہ اس صبح کے دامن میں ایک ایسی قیامت چھپی ہے جو پل بھر میں زندگی کے خوبصورت چہرے کو مسخ کر دے گی اور جہاں بچوں کی مسکراہٹ کے پھول کھلتے ہیں وہاں موت کی تاریکیاں پھیل جائیں گی۔ والدین گھر سے بچوں کو آخری بار رخصت کرتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ بچے اب کبھی اپنے گھر کو لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ کسی کے وہم و گماں میں بھی نہیں کہ موت ان بچوں کے کاندھوں پر جھولتے بستوں کو ملبوں کے ڈھیر میں دفن کر دے گی۔ 
پھر گھنٹی بجتی ہے۔ بچے اسکول کے اسمبلی گراؤنڈ میں جمع ہوتے ہیں۔ آخری بار۔۔۔! آنے والے لمحوں سے بے خبر۔۔۔۔! فضا میں سورۃ اخلاص کی خوشبو پھیلتی ہے، وہ خوشبو جو ہمیشہ رہنے کے لیے ہے۔ اسمبلی برخواست ہوتی ہے۔ بچے اپنے کلاس روم میں پہنچ جاتے ہیں۔ باہر فضا میں ابھی ان کے قدموں کی دھول اُڑ رہی ہے۔ بس چند لمحے اور۔۔۔۔! اور پھر ایک دھماکہ ہوتا ہے۔ اسکول کی عمارت لرزنے لگتی ہے۔ بچے بھاگنا چاہتے ہیں لیکن انھیں مہلت نہیں ملتی۔ زمین اپنی سطح سے کئی فٹ بلند ہوتی ہے، بچے چھتوں تک اوپر اچھلتے ہیں، ایک دوسرے پر گرتے ہیں، کتابیں کُھلی رہ جاتی ہیں اور تین چار سیکنڈز میں سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ ہزاروں بچے اپنے اسکولوں کی ٹوٹی ہوئی چھتوں اور گرتی ہوئی دیواروں کے ملبے تلے دفن ہوجاتے ہیں۔ کہیں، کہیں سے کوئی سسکی ابھرتی ہے۔ کوئی نحیف صدا بلند ہوتی ہے لیکن دھیرے، دھیرے یہ صدائیں اپنی شناخت ختم کرتی چلی جاتی ہیں اور ایک سکوت ان کی جگہ لے لیتا ہے۔ ایک نسل۔۔۔۔ ایک پوری نسل ختم ہوجاتی ہے“۔
بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں رہی 
ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا 
”8اکتوبر 2005ء؁ سے پہلے کا بالا کوٹ“ کے عنوان سے صفحہء خاک میں شامل ایک مضمون میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ ”گھنے جنگلوں، خنک چشموں، گنگناتے آبشاروں اور لہلہاتے کھیتوں کے درمیان دریائے کنہار کے دونوں کناروں پر دور تک پھیلا ہوا بالاکوٹ، فطرت کی فیاضیوں کا منہ بولتا شاہکار تھا۔ اپنے خوب صورت موسموں، دل فریب نظاروں اور پُر سکون ماحول کی بدولت یہ شہر کبھی رشکِ فردوس ہوا کرتا تھا۔ اس کی بل کھاتی پگڈنڈیوں اور پر پیچ راستوں پر کبھی زندگی رواں دواں رہتی تھی۔ بالا کوٹ، جنت نظیر وادی، کاغان کا دروازہ، اپنے حسن و جمال اور تاریخی پسِ منظر کی وجہ سے ہمیشہ سے خصوصی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ دریائے کنہار جسے ملکہ نور جہاں نے نین سکھ کا نام دیا تھا، اس شہر کے درمیان میں سے گزرتا تھا۔ دریا نے تو خیر اپنے کناروں سے تجاوز کیا ہے نہ اپنا راستہ بدلہ ہے مگر دریا کے مضافات میں جہاں کبھی زندگی اپنی تمام تررعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر تھی، اب اجڑے ہوئے شہر کی باقیات کے علاوہ کہیں کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ وہ عمارتیں رہیں نہ وہ لوگ، نہ وہ زندگی کی رعنائیاں!“
معروف دانشور اور لکھاری عامر سہیل کتاب کے دیباچے میں تحریر کرتے ہیں ”یہ کتاب محض تاریخ نویسی کا شوق پورا کرنے کے لیے نہیں لکھی گئی بل کہ اس کی ایک ایک سطر کو ذاتی تجربے اور مشاہدے نے زندہ جاوید بنا دیا ہے۔ یہ ذاتی تجربہ آگے چل کر ایک وسیع سماجی تجربے سے منسلک ہوجاتا ہے اور یوں یہ تصنیف ایک عہد کی تاریخی دستاویز بن جاتی ہے۔ احمد حسین مجاہد کی فلسفیانہ فکر نے اس سانحے کو جس زاویے سے دیکھا اور پرکھا وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہے۔ دوران مطالعہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ہمیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اس نوع کے سانحے جہاں زندگی میں تذبذب اور تشکیک کے جذبات پیدا کرتے ہیں وہاں ہماری ذات کی تطہیر بھی کرتے ہیں، یعنی معاشرہ کس طرح انتشار کا شکار ہو کر خود اپنے باطن سے اتحاد و یگانگت کی روح بیدار کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہ سبق 8اکتوبر نے پڑھا دیا ہے“۔  ”صفحہء خاک“ میں 8اکتوبر کی دو تصویریں ملتی ہیں۔ پہلی تصویر آٹھ اکتوبر سے پہلے کی اور دوسری اس کے بعد کی ہے۔ جناب مجاہد نے اپنے مو قلم سے دونوں تصویریں زندہ کر دی ہیں، صاحبِ کتاب کی کوشش یہی رہی ہے کہ وہ تمام چھوٹے بڑے واقعات سامنے لے آئے تاکہ مستقبل کا مورخ جب بالا کوٹ کی نئی تعبیر تلاش کرنے نکلے تو اسے زیادہ دور نہ جانا پڑے“۔
بلاشبہ احمد حسین مجاہد نے اپنے قلمی جہاد سے صفحہ خاک میں ایک بڑے قومی سانحہ پر جس طرح دکھی دل کے ساتھ حرفوں اور الفاظ کو آنسوؤں کے لبادے میں صفحہء قرطاس پر اتارا اور رقم کیا ہے،یقینا یہ ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو نہایت قابلِ رشک، ناقابلِ فراموش اور لائقِ صد تحسین ہے۔”صفحہ خاک“ ایک ایسی شاہکار کتاب ہے جس کے بارے میں بلا مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ صدیوں تلک زندہ و جاویدرہے گی، جس میں زندگی، فطرت اور زمانے کے تغیرات و مناظر کی عکس بندی اور منظر کشی انتہائی عمدگی اور خوب صورتی کے ساتھ بے نظیر اور پُر اثر اسلوب میں میسر آتی ہے۔ مختلف موضوعات کا احاطہ نہایت عرق ریزی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ مطالعہ کرتے ہوئے اشک آنکھوں سے رواں رہتے ہیں،دامن بھیگ جاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی تمام تر تخلیقی صلاحیتیں درد مندی اور وسعت نظری کے ساتھ دل کھول کر ”صفحہء خاک“ پر رکھ دی ہیں۔ کتاب میں معلومات کا خزانہ بھرا ہے۔ احمد حسین مجاہد نے پاکستان میں وقتاً فوقتاً آنے والے زلزلوں کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی مکمل تفصیل بھی بیان کردی ہے۔ زمین زلزلوں سے کیوں لرز کر رہ جاتی ہے، سائنسی نکتہ نگاہ سے اس باب میں بھی مضامین باندھے گئے ہیں۔ مختصراً یہ کہ انھوں نے سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ کریم پوری مسلم امہ، عالم انسانیت اور وطن عزیز کو ایسی افتاد اور مصائب سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین 
احمد حسین مجاہد کے اس شعر کے ساتھ اختتام۔
زباں سمجھتاہوں میں ٹوٹتے ستاروں کی 
یہ شہر مجھ کو اجڑتا دکھائی دیتا ہے