میں کٹ مروں گا ختم نبوت کے نام پر | Muhammad Farooq Azmi

خمیدہ کمر، نحیف و نزار جسم، ہاتھوں میں رعشہ،
ضلع کچہری کے سامنے لاٹھی ٹیکتے ہوئے، کشاں کشاں مینار پاکستان کی جانب سفر کرتے بابا جی سے میں نے پوچھا! کہاں جارہے ہیں؟ انہوں نے میری طرف دیکھے بغیر جواب دیا جہاں تم جارہے ہو۔ میں تو علامہ صاحب کے جنازے میں شرکت کے لیے مینار پاکستان جارہا ہوں۔ بابا جی نے پھر میری  طرف دیکھے بغیر ہی جواب دیا، تو تمہارا کیا خیال ہے کہ میں ایک عاشقِ رسولؐ کے جنازے میں شرکت کی سعادت سے محروم رہ جاؤں؟
”پُتر میں تو کُھڈیاں سے موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر یہاں تک آیا ہوں۔ اب آگے پولیس والے موٹر سائیکل نہیں جانے دیتے، چلیں اللہ ان کا بھلا کرے“ میں نے پوچھا! بابا جی آپ کی عمر کتنی ہے؟ ان کی پوری توجہ اپنے ہاتھ میں پکڑے عصا اور اپنے قدموں کی رفتار پر تھی جیسے وہ جلد از جلد مینار پاکستان پہنچنا چاہتے ہوں۔ 
71 سال!انہوں نے اس بار بھی میری طرف دیکھے بغیر جواب دیا، میں دل ہی دل میں بابا جی کے جذبے کو سلام کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا، ہمیں بھی پیدل ہی مینار پاکستان تک جانا تھا کیونکہ ٹریفک پولیس نے کچہری چوک سے آگے ہر قسم کی ٹریفک کوجانے سے روک دیا تھا اور ہمیں اپنی گاڑی”سنگ میل پبلی کیشنز“کے سامنے پارک کرنا پڑی تھی۔
مینار پاکستان پہنچنے کے بعد 6 گھنٹے جنازے کے انتظار میں لوگوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے درمیان گزارنے کے دوران میں نے اس مثالی جذبے کے بے شمار مناظر دیکھے۔ اس حیران کن سفر آخرت میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ، جو ایک سچے اورپکے عاشق رسولؐ (ﷺ) کی محبت اور عقیدت میں دیوانہ وار جس ڈور میں بندھے چلے آئے تھے اس کا نام ”عشق مصطفی(ﷺ) ہے لاہورکی تاریخ نے، لوگوں کی آنکھوں نے اور چشم فلک نے ایسا نظارہ پہلے کم ہی دیکھا ہوگا۔ علامہ خادم حسین رضوی نے چار برس کے قلیل عرصے میں جس طرح ”عالم کفر“ کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا اس کے پیچھے عشق رسولؐ کا جذبہ ہی کار فرما تھا۔
ختم نبوت، یعنی ذاتِ اقدس نبی اکرم ﷺ پر ہر قسم کی نبوت کا ختم ہو جانا، اُمت کا اجتماعی عقیدہ ہے خود نبی پاک ﷺ نے فرما دیا تھا، میں آخری پیغمبر ہوں اور میرے بعد اب کوئی پیغمبر نہ آئے گا، 
اسی طرح اس ساری کائنات میں تمام مخلوقات میں اللہ تعالیٰ کے بعد جو ہستی سب سے زیادہ سب سے بڑھ کر اعلیٰ و بالا، مقدس و محترم، قابل احترام و تعظیم ہے وہ نبی مہرباں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات اقدس ہے۔
بعد از خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر
لیکن کیا بدنصیبی ہے کہ پوری دنیا میں اور بالخصوص پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے آقا کریم ﷺ کی شانِ اقدس میں اور عقیدہ ختم نبوت کے بارے میں دشنام طرازیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جسے کسی طور بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ناموس مصطفی ﷺ کے بارے میں ہر مسلمان اتنا حساس ہے کہ چاہے اس کی جان چلی جائے وہ اس معاملے میں کبھی بھی، کہیں بھی اورکسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہیں کرسکتا، یہ گنہگار سے گنہگار مسلمان کے ایمان اور عقیدہ کا مسئلہ ہے، یہی وہ ”روحِ محمد“ ہے جو ان فاقہ کش مسلمانوں کے بدن سے جدا نہیں ہوتی، اس روح کا دوسرا نام ”عشق مصطفی  ؐ“ ہے، اس جذبے کو اپنی شعلہ بیانی سے جو حرارت علامہ خادم حسین رضوی نے فراہم کی اس تپش نے غلامانِ مصطفی  ؐ میں وہ جذبہ پیدا کر دیا کہ وہ امیر المجاہدین خادم حسین رضوی کے جنازے میں دیوانہ وار چلے آئے، لاکھوں کروڑوں کے اس مجمعے میں بچے بوڑھے جوان غریب امیر ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔
علامہ خادم حسین رضوی کی مقبولیت کا راز کوئی نہ سمجھ آنے والی بات ہرگز نہیں ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے خلیفہ ہارون الرشید نے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں سب و شتم کرنے والے کے متعلق پوچھا اور کہا کہ بعض فقہاء نے ایسے شخص کو کوڑے لگانے کا حکم دیا ہے یہ سنتے ہی آپ کا چہرہ غصے سے متغیر ہوا اورآپ نے فرمایا!
”اے امیر المومنین! حضور ﷺ کو سب و شتم کے بعد اُمتِ مسلمہ کی بقاء کا (زندہ رہنے کا) کیا جوازباقی رہ جاتا ہے؟“
بس اسی بات کی تشریح اس مرد درویش نے پوری دیانت داری، ہمت و جرأت اور دلیری سے بے باکانہ انداز میں کی اور اُمتِ محمدی کے دل جیت لیے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں لاکھوں کروڑوں مداح پیدا کرلیے۔ نوجوانوں کے دلوں میں شمعِ عشق محمدیؐ کی ایسی لو سلگائی جس نے جریدہ عالم میں نئی تاریخ رقم کردی اب لاکھوں دلوں سے جو آہ نکلتی ہے وہ زبان پرآتے آتے ”لبیک یا رسول اللہؐ“ کی صدا بن جاتی ہے۔جس سے کفر اور یورپ کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔
جرم توہین رسالت کے حوالے سے مذاہب اربعہ کا نکتہ نظر ایک ہی ہے اور اس پر حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی بلکہ فقہ جعفریہ بھی متفق ہے۔ مندرجہ بالا سطور میں ہم نے امام مالک کا نکتہ نظر بیان کیا ہے۔ تحریر کی طوالت سے بچنے کے لیے ہم یہاں مزید صرف ایک نکتہ نظر یعنی احناف کا موقف درج کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ”تنویر الابصار“ اور ”در مختار“ جو فقہ حنفی کی مستند کتابیں ہیں میں واضح طور پر درج ہے کہ
”جو مسلمان مرتد ہوا اس کی توبہ قبول کی جائے گی سوائے اس کافر و مرتد کے جو انبیاء علیہم السلام میں سے کسی بھی نبی کو گالی دے تو اسے حداً قتل کیا جائے گا اور مطلقاً اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی“۔
 (دارالمختار جلد 4۔ ص 231)
پاکستان میں تحریک ختم نبوت کے محافظ اورناموس رسالتؐ کے پہرے دار عالم دین اور عاشق رسول
(ﷺ) امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی کی اچانک رحلت نے سارے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر یہ خبر سن کر کروڑوں دل تڑپ کر رہ گئے، ہر آنکھ اشک بار تھی، ہر دل افسردہ تھا، سوشل میڈیا پر علامہ صاحب کی اچانک وفات ٹاپ ٹرینٹ تھی۔ ایسے میں ہر شخص ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتا تھا۔ خصوصاً ان کے جنازے کے بعدتو لوگ ان کی زندگی کے متعلق ایک دوسرے سے استفسار کرتے ہی نظر آئے،   اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے قلم فاؤنڈیشن کے چیئرمین علامہ عبدالستار عاصم اور ان کے ایک رفیق ضیغم رسول قادری نے ہتھیلی پر سرسوں اُگانے کا عزم کیا۔ علامہ موصوف حیرت انگیز شخصیت کے مالک ہیں اور اکثر کارہائے نمایاں سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ اس سے قبل وہ 2014ء میں 5 جلدوں اور 3500 صفحات پر مشتمل قائداعظم ؒ کی زندگی پر ”انسائیکلوپیڈیا جہاں قائد“ کے نام سے چھاپ کر داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں لیکن پھر بھی سوال اٹھتا تھا کہ ہفتہ دس دن میں یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی شخصیت کے بارے میں ایک جامع کتاب چھاپ دی جائے لیکن فرہاد بھی تو تیشہ لیکر جوئے شیر نکالنے چل دیا تھا۔ جذبے سچے ہوں تو ہر چیز ممکن ہے، بقول بہزاد لکھنوی   ؎
اے جذبہ دل گر میں چاہوں، ہر چیز مقابل آجائے
لوگوں کا تجسس اور جستجو بھی عروج پر تھی، لوگ جاننا چاہتے تھے کہ وہ مرد درویش کون تھا جو جسمانی طور پر تو معذور تھا لیکن ڈٹ کر کھڑا تھا، جسے جاڑے کی یخ بستہ راتوں میں زنداں کے ٹھنڈے فرش پر لٹایا جاتاتھا، جس کے زندانی بوسیدہ کمبل پر سردیوں میں پانی پھینک دیا جاتا تھا، جس پر آنسو گیس کے شیلوں کی بارش کر دی جاتی تھی جو حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو دلیرانہ انداز میں للکارتا تھا جس کے لہجے میں تلخی صرف اس وقت آتی جب بات ناموسِ رسالتؐ کی ہورہی ہوتی۔ جس نے حرمتِ رسولؐ پر اس طرح پہرہ دیا کہ کفر کے ایوانوں میں اس کے نام سے لرزہ طاری رہا، جسے موسم کی شدتوں نے ذرا بھی خوف زدہ نہ کیا اورجب بھی تحفظ ناموس رسالتؐ کے لیے نکلنا پڑا وہ مجاہدین کا سپہ سالار بن کرنکلا۔
مجھ پر فتویٰ نہ لگے تو مجھے کہنے دیجیے کہ اس کے جنازے میں شاید فرشتے بھی اتر آئے تھے اور یہ بھی اک کرامت ہی ہوئی کہ 19 نومبر کی رات کو وہ مرد حق مرد قلندر اس دار فانی سے رخصت ہوا اور جمعرات 26 نومبر کو ”علامہ خادم حسین رضویؒ حیات و خدمات“ کے نام سے 232 صفحات پر مشتمل کتاب چھپ کر تیار تھی۔ گویا ہتھیلی پر سرسوں اُگ آئی تھی۔ یہ اس مردِ قلندر کی زندگی کا مختصر سا جائزہ ہے، ان کی زندگی پر بہت کچھ لکھا جانا باقی ہے جو اقبال کا حافظ تھا اور جس کی زندگی کا مقصد ناموس رسالتؐ پر پہرہ دینا اور حرمتِ رسولؐ کا جذبہ اُمت مسلمہ میں اُجاگر کرنا تھا، علامہ اقبال کے اشعار انہیں ازبر تھے،وہ موقع و محل کی مناسبت سے برجستہ ان اشعار سے دلو ں کو گرماتے تھے، وہ عاشقوں کے امام تھے اورامامت کی حقیقت کو بھی سمجھتے تھے، اقبال کے یہ اشعار انہی پر صادق آتے ہیں۔

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
خدا تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

موت کے آئینے میں تجھے دکھا کر رُخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے

دے کر احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

فتنہ ملتِ بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
(ضرب کلیم)

اس مرد حق، مرد درویش پیکر فکر و غنا کے بارے ابھی بہت کچھ لکھا جاتا رہے گا، علامہ خادم حسین رضوی پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے سر براہ تھے جنہوں نے 2018کے عام انتخابات میں اپنے ووٹروں کی تعداد سے سب کو چونکا کر رکھ دیا تھا۔ ہمارے ہاں دستور ہے کہ ہم زندوں کی قدر نہیں کرتے لیکن مرنے کے بعد زمانہ بہت یاد کرتا ہے۔ شائد علامہ خادم حسین رضوی جیسے ہی کسی شخص کے لیے شاعر نے کہا تھا؟
مجھ پہ تحقیق میرے بعد کرے گی دنیا 
مجھے سمجھیں گے میرے بعد زمانے والے
میں کٹ مروں گا ختم نبوت کے نام پر
شورش ہے میرا عشق خداداد و لازوال
انہیں سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے،یہ کتاب قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل نے خوبصورت انداز میں شائع کی ہے حسب روایت کاغذ عمدہ اورجلد مضبوط ہے۔ قیمت 600روپے ہے رابطے کے لیے 0300-0515101 پر کال کریں یا قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل یثرب کالونی بینک سٹاپ والٹن روڈ لاہور کینٹ پر خط لکھیں۔