مشرقی پاکستان کی علیحدگی، اسباب وعوامل | Omer Farooqi

شیخ مجیب الرحمن نے 1970 کاالیکشن مشرقی پاکستان سے چھ نکات کی بنیاد پر لڑا تھا ، بلا شبہ ان نکات کا سیدھا مفہوم آئین میں صوبائی خود مختاری کی ضمانتوں کا حصول کے ساتھ ساتھ قومی مرکزیت پر عدم اعتماد تھا ۔ جبکہ ہمارے ہاں چھ نکات کا مطلب پاکستان کے چھ ٹکڑے کرنا تھا۔ انتخابات میں اپنی بھر پور کامیابی کے بعد شیخ مجیب الرحمن نےپاکستان کا نیا آئین چھ نکات کی بنیاد پر بنانے کا اعلان کیا، لیکن جب یحییٰ خان نے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کیا تو اس کے خلاف مشرقی پاکستان میں شدید احتجاج ہوا ۔مارچ 1971ء میں شیخ مجیب الرحمن نے عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی۔ جس کی وجہ سے 25 مارچ 1971ء کو فوج نے شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر لیا اور مشرقی پاکستان میں 26 مارچ 1971ء سے فوجی کارروائی شروع کر دی۔ جواب میں بنگالی عوام نے شدید مزاحمت کی اور بڑے پیمانے پرخانہ جنگی شروع ہو گئی، جسے بنگالی میں ( مکتی جدھو) اور پاکستان میں سقوط مشرقی پاکستان یا سقوط ڈھاکہ کہا جاتا ہے، پاکستان کے دو بازوؤں، مشرقی و مغربی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ تھی جولرزہ خیز اور ہولناک المیوں کی ایسی داستان ہے جس کےایک ایک حرف سے خون ٹپکتا ہے۔جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش کی صورت ایک آزاد اور خود مختار ملک دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ جس کا اب ہم سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ 
 مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے شیخ مجیب الرحمن کے کردار سے ہٹ کر بھی بات کی جائے تو اس کی صورتحال کا عجیب وغریب پہلو یہ ہے کہ ملک اقلیتوں کے ہاتھوں ٹوٹتے ہیں کیونکہ وہ اکثریت کی شکایت کرتی ہیں اور ملک سے الگ ہونے کے لیے کوشاں ہوتی ہیں۔ لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو جب ہم المیہ کہتے ہیں تو اس کا سبب اکثریت کی جانب سے اقلیت سے الگ ہونے کی جدوجہد ہے جس کا ذمہ دار ہمارے ہاں حکمرانی کا وہ عہد ہے جس میں مشرقی پاکستان کے لوگوں سےغلاموں جیسا سلوک کیا گیا اور ان کی تحقیروتذلیل کی گئی۔یہ ایک مکمل داستان ہے جس پرلاتعداد کتابیں شائع ہوچکی ہیں اورظلم، زیادتی ، ناانصافی پر بہت کچھ لکھا گیا ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب اس تاثر کا عام ہوناتھا کہ مغربی پاکستان نے مشرقی حصے کے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مشرقی حصے کی پیداوار پر مغربی حصے کی اجارہ داری ہے اور یہ کہ مغربی پاکستان آبادی اور رقبے کے حساب سے مشرقی حصے کو مناسب وسائل نہیں دیتا۔جو بڑی حد تک درست تھا لیکن اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش نہ ہوئی ،نہ ہی کسی نے اصلاح احوال کی جانب سنجیدگی سے کوئی اقدام اٹھایا گیا ۔ سب سے ا ہم کہ ہمارےہاں انہیںہمیشہ کمتر سمجھا گیا۔
   اب کم و بیش 50 سال گزر جانے کے بعدمشرقی پاکستان کی علیحدگی یا بنگلہ دیش کے قیام کے ایشو پر بعض حلقوں کی رائے ہے کہ اب ا س سانحے کو فراموش کر دینا چاہئے، بلکہ اس کے ذکر پر بھی پابندی ہونی چاہئے لیکن بہت سے لوگوں کو اصرار ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے واقعے کو تکرار کے ساتھ دہراتے رہنا چاہئے کیونکہ اس پر بے لاگ تجزیوں اورتبصروں کے نتائج ان حلقوں کی بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں جو پاکستان کی داخلی اور خارجہ حکت عملیاں ترتیب دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک باوقار قوموں کا یہی طر ز فکر اور طر ز عمل ہونا چاہئے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ شکست کا سامنابھی قوموں کی زندگی میں پیش آنے والے تجربات کا حصہ ہے۔ دنیا میں کامیاب قومیں کبھی نہ کبھی شکست کے تجر بوں سے کسی نی کسی طور ضرور گزری ہیں۔لیکن اس کا اصل سبقیہ ہے کہ کوئی قوم اپنی شکست اور ناکامیوں کے اسباب کا تجزیہ کتنی دیانت داری اور خلوص کے ساتھ کرتی ہے اور کتنی شدت کے ساتھ خود کو نئے چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کے لئے تیار کرتی ہے۔ 
 اس حوالے سےیہ سوال اپنی جگہ کہ کیا سقوط ڈھاکہ یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی ناگزیر تھی؟ اور اگر ناگزیر تھی تو کیا اس سے بچا جاسکتا تھا؟ تواس کا جواب تاریخ سے ڈھونڈنے کی کوشش ہونی چا ہئے۔اس حوالے سے غیر جذباتی اور حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اولین سبب ہماری قیادت کا بے وجہ جذباتی پن تھا جس میں بنگالی کو اردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ نہ دینا تھا۔ اس بے جا اصرار کے نتیجے میں بنگالی عوام کے جذبات سے کھیلا گیا ۔ـ" سرکاری زبان صرف اردو ہوگیـ" کا نعرہ ایک بلا وجہ کا جذباتی ایشو تھا جس کی بے مقصد کشمکش نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے باشندوں کے درمیان نفرت کے بیج بوئے اور زبردست انتشار پیدا کیا۔ جس کا نتیجہ سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں برآمد ہوا۔ قائداعظمؒ نے 1948ء میں رمنا ریس کورس گراؤنڈ میں اردو کو پاکستان کی واحدسرکاری زبان قرار دینے کا اعلان کیا اور جواب میں اسی وقت قائداعظمؒ کے اس اعلان کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا اور شیخ مجیب الرحمن نے ایک طالب علم رہنما کے طور پر بنگالی طلباء کے وفد کے ساتھ قائداعظم سے ملاقات کی اور اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا۔ لیکن اس مطالبے کو نہیں مانا گیا۔ اردو کو پاکستان کی واحدسرکاری زبان قرار دینے کے خلاف اور بنگلہ کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دینے کے مطالبے کے حق میں ہڑتالیں اور مظاہرے چلتے رہے اور1952ء میں اس تحریک نے ایک نیا موڑ لیا جب وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے جوخود مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے بھی سرکاری زبان صرف اور صرف اردو کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد ڈھاکہ شہر میں شدید مظاہرے ہوئے اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں جب طلباء کے احتجاج نے شدت اختیار کرلی تو پولیس کی فائرنگ سے چند طلباء ہلاک ہوگئے ۔ ان طلبہ کی یاد میں اس جگہ ’’شہید مینار ‘‘ تعمیر کردیا گیاجس نے آگے چل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک میں ایک علامتی صورت اختیار کرلی۔ 1956ء میں بنگالی کو مشترکہ سرکاری زبان کی حیثیت دی گئی مگر اس وقت تک پلوں سے کافی پانی گزر چکا تھا۔
  بہت سارے دانشوروں کا خیال ہے کہ دونوں حصوں کی ایک دوسرے سے ہزاروں کلومیٹر دوری ایسی کمزوری تھی جس کے باعث پاکستان کا متحد رہنا ممکن ہی نہ تھا۔یا دونوں حصوں کے لوگوں کی بودوباش، رہن سہن ، زبان ، مزاج میں میں کسی صورت کوئی ہم آہنگی یا مطابقت نہیں تھی سوائے اس کے کہ دونوں حصوں میں بسنے والوں کی اکثریت مسلمان تھی ، جسے دوقومی نظریے کا نام دیکر قیام پاکستان کیلئے ایک طاقتور دلیل قرار دیاگیا، لیکن مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے پر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا ’’آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔‘‘خود ہمارے بہت سے دانشور بنگلہ دیش کے قیام کو بھارت ہی کی طرح دو قومی نظریے کو ایک غیر حقیقی قرار دیتے ہیں۔ چھ نکات اور 1970کے انتخابات میں مجیب الرحمن کی کامیابی ، ادھرہم ادھرتم کے نعرے، خانہ جنگی ،پاکستان کی فوجی شکست جیسے وقتی اسباب وعوامل تو محض ایک بہانہ تھا۔جسے ہم سقوط ڈھاکہ یا سقوط مشرقی پاکستان کاالمیہ کہہ کر ہر سال نوحہ خوانیاں کرتے ہیں۔مشرقی پاکستان کی ناگزیر علیحدگی دراصل 24 سال سے چل رہےاس عمل کا حصہ تھے جوقیام پاکستان سے ہی جاری تھا ۔