فن و ادب کے افق کا روشن ستارہ ڈاکٹر محسن مگھیانہ | Luqman Asad

دنیا ے علم و ادب میں ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی شخصیت اور نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کا دامن باکمال تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ ان کی تخلیقی کارگاہ سے ایسے بے نظیر فن پارے معرض وجود میں آکر صفحہِ قرتاس پر رقم ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر فکر کی نئی راہیں استوار ہونے لگتی ہیں۔ وہ بلند پایہ مزاح نگار، افسانہ نگار، صاحب طرز کہانی نویس، خوبصورت سفر نامہ لکھنے والے ایک قد آور ادیب شاعر اور نامور علمی شخصیت ہیں۔ ان کی نگارشات اس قدر دل آویز، شان دار، جان دار اور پر اثر ہیں کہ بڑے ادبی مراکز سے دور رہتے ہوئے بھی انہیں اپنی صلاحیتوں کا رنگ جمانے اور لوہا منوانے میں طویل عرصہ نہیں لگا۔ نامی گرامی ادباء شعراء، اکابرینِ ادب ان کے فنی کارناموں کے معترف ہیں۔ معروف نقاد ڈاکٹر سلیم اختر نے ان کے بارے میں یہ خوب صورت بات کہی "لوگ جو کہتے ہیں کہ مضافات کے ادیبوں کو کوئی پوچھتا نہیں، وہ محسن مگھیانہ کی طرف بھی تو دیکھیں "۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر محسن نقوی نے انہیں ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا "ڈاکٹر محسن مگھیانہ کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی تحریر میں پوری بینائی انڈیل دیتے ہیں "۔ 
ڈاکٹر محسن مگھیانہ کا اصل نام نیاز علی احمد خان محسن ہے۔ آپ یکم جنوری1956ء کو "جھنگ "کے مضافاتی علاقہ "مگھیانہ"میں مہر بشیر احمد کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آبائی علاقہ اور جھنگ شہر کے مختلف سکول سے حاصل کی۔ میٹرک اسلامیہ ہائی سکول جھنگ سے کیا اور ایف ایس سی کا امتحان گورنمنٹ کالج جھنگ سے امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔ ایم بی بی ایس پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد سے جب کہ ماسٹر آف سرجری کی ڈگری پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ لاہور (پنجاب یونیورسٹی) سے حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی ہی سے اد ب کی طرف راغب ہوئے۔1963ء سے انھوں نے باقاعدہ طور پر بچوں کے رسائل اور مختلف قومی اخباروں میں بچوں کے صفحات کے لیے لکھنا شروع کیا۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی پہلی کتاب "انوکھا لاڈلا ''(آپ بیتی۔طنز و مزاح) 1994ء میں شائع ہوئی۔ جس کے اب تک چار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کتاب کا دیباچہ وطن عزیز کی ممتاز ادیبہ اور ناول نگار بانو قدسیہ اور عہد ساز ادیب ڈاکٹر وزیر آغا نے تحریر کیا۔ بانو قدسیہ رقم طراز ہیں "بے تکلف لکھنے کا یہ انداز، نتیجے اخذ کرنے کی ایسی صلاحیت، عامیانہ کو افضل بنانے کا باریک گُر سبھی لکھنے والوں کو نہیں آتا۔ محسن نے گل ارضی سے ایسے نقش و نگار بنائے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے"۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں "یوں لگتا ہے جیسے زمانہ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کے سامنے اپریشن ٹیبل پر پڑا ہے اور وہ اس پر طنز و مزاح کے سارے حربے استعمال کر رہے ہیں "۔ 
ڈاکٹر محسن مگھیانہ اردو زبان کے علاوہ پنجابی میں بھی بہت عمدہ ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ اب تک ان کی 21کتابیں منصہِ شہود پر آچکی ہیں۔ جن میں 6کتابیں پنجابی زبان میں ہیں۔ ان کے ہاں طنز و مزاح کا ایک الگ، منفرد انداز اور اسلوب ملتا ہے۔ ان کی ایک کتاب کا نام ''پیارا لوٹے میں ''ہے۔ یہ اردو میں تحریر کیے گئے کالموں کا مجموعہ ہے۔ ان کے کالم بھی در اصل طنز و مزاح پر مبنی مضامین ہوتے ہیں۔ اس کتاب کے نام کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ "جب نیا، نیا موبائل فون آیا تھا تو لوگ بیگم سے چھپا کر غسل خانے میں فون سننے جاتے تھے تو بے دھیانی میں یہ ''لوٹے ''میں غسل فرمانے گر پڑتا تھا اس لیے میں نے اپنی اس کتاب کا نام ''پیارا لوٹے میں ''تجویز کیا۔ طنز و مزاح کی دنیا کا معتبر نام اور استاد مزاح نگار مشتاق یوسفی بھی ان کی مزاح نگاری کے دل دادہ تھے۔ انہوں نے اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا''ڈاکٹر محسن مگھیانہ ایسا اچھا اور اتنازیادہ مزاح نجانے کیسے لکھ لیتے ہیں ''۔ 
شہرہ آفاق شاعر احمد ندیم قاسمی نے ان کے بارے میں لکھا کہ ''حق بات یہ ہے کہ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی تحریر کے مطالعہ کے بعد میں اردو ادب میں مزاح کے مستقبل کے بارے میں پوری طرح مطمئن ہوں ''۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کے علم و فن و ادبی کارناموں پر اب تک 16سے زائد مختلف یونیورسٹیز اور کالجز کے طلباء و طالبات نے ایم فل اور بی ایس کے تھیسز تحریر کیے ہیں۔ معروف اسکالر اور شاعرہ پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے ان کی علمیت و شخصیت کے حوالے سے ایک خوب صورت اور جامع کتاب ''بلندیوں کا مسافر ''تحریر کی ہے جو چھپ کر منظرِعام پر آچکی ہے۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کا تخلیقی سفر پورے جذبے اور ولولے کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ دعا ہے کہ وہ یوں ہی تا دیر اپنے سخن کا جادو جگاتے رہیں۔ 
ان کے ان خوب صورت اشعار کے ساتھ اختتام:
مجھے کام کا جنوں تھا، تجھے دیکھنے سے پہلے 
میں بہت ہی پر سکوں تھا، تجھے دیکھنے سے پہلے 
یہ ہے سچ بجز محبت، دنیا میں کچھ نہیں ہے
مِرا جزب سر نگوں تھا، تجھے دیکھنے سے پہلے 
کسی ہاتھ میں تیر ہے کسی ہاتھ میں ہے پتھر 
یہ جنوں کب فزوں تھا، تجھے دیکھنے سے پہلے